• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بلوچستان دہائیوں سےبیگناہ انسانوں کی لاشیں گن رہا ہے۔ یہ دھرتی آگ و خون کی لپیٹ میں ہے۔ کہیں عزت کے نام پر ناحق انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارا جاتا ہے۔ کہیں قوم پرستی کی آڑ میں اندھی گولی چلتی ہے۔ کہیں مذہبی منافرت کے نعرہ پرسروں کی فصل کٹتی ہے۔ کہیں لسانیت کے لبادے میں غریبوں، مزدوروں کو ہلاک کرکے ظلم کی انوکھی داستانیں رقم ہوتی ہیںاوریہ سب کچھ ہمارے ازلی دشمن بھارت اور اسرائیل کے گٹھ جوڑ کا شاخسانہ ہے۔ کئی برس سے مسافر بسوں سے بے گناہ افراد کو اتار کر شہیدکیا جا رہا ہے۔ گزشتہ دنوں ایک بار پھرایک اندوہناک واقعہ سرزد ہواہے ۔ دہشت گردوں نے بس روک کر پنجابی اور سرائیکی النسل مسافروں کو اتارا، شناختی کارڈ سے تصدیق کے بات انہیں ان کے عزیز و اقارب اور اہل و عیال کے سامنے بے دردی سے شہید کر دیا ۔ یہ اس زمین پر مسلسل کھیلے جانے والے خونیںکھیل کی ایک لرزہ خیز قسط ہے۔یہ واقعہ پہلا نہیں ایسے سانحات اور واقعات کا تسلسل ہمیں اس بات پر مجبور کرتا ہے کہ ہم بطور ریاست، قوم، معاشرہ اور ملک کچھ فوری، ہنگامی اور پائیدار اقدامات کریں۔ یہ محض سیکورٹی فالٹ نہیں بلکہ ایک اجتماعی قومی المیہ ہے ،سانحہ ہے ۔ ایسے المناک اور روح فرسا واقعات کے لئے صرف مذمتی بیانات کافی نہیں بلکہ فوری ایک مبسوط و مربوط عملی حکمتِ وضع کر کے اس پر عمل کرنا ہوگا ۔ چائنہ، امریکہ ، ترکیہ، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب ، ایران اور دیگر ممالک میں سڑک یا شاہراہ پر اس طرح کے واقعات کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ انہوں نے انتہائی دانشمندی اور جرات سے ایسے جرائم پر قابو پالیاہے۔اس ضمن میں میری کچھ تجاویز ہیں جو بنیادی اور سادہ ہیں تاہم ان کے نتائج موثر اور دیرپا ہو سکتے ہیں۔ یہ تجاویز پاکستان کی اعلیٰ سول، فوجی قیادت، حساس اداروں، وفاقی اور صوبائی محکمہ جات کی توجہ اور غور و فکر کی مستحق ہیں۔1۔بلوچستان سے پنجاب کی طرف گامزن بسوں میں دو سے پانچ کمانڈوز کو بھی بٹھایا جائے۔2۔ہر دس سے پندرھویں بس میں کمانڈوز سفر کریں۔3۔سادہ مقامی لباس زیب تن کریں تاکہ ان کی موجودگی کا کسی کو بھی احساس نہ ہو۔4۔ان کو بڑے ہتھیاروں کے بجائے موثر اور چھوٹے ہتھیاروں سے مسلح کیا جائے۔ایسا اسلحہ جو لباس یا جیکٹس میں پوشیدہ ہو۔5۔اس مقصد کیلئے سٹنٹ گنز، الیکٹر شاک گنز، ایم پی 5، SMG، اوزی گن یا بڑی میگزین کے حامل آٹو میٹک 9MM اور 30بور پسٹل استعمال کئے جا سکتے ہیں۔6۔تمام کمانڈوز بلٹ پروف جیکٹس اور دیگر حفاظتی آلات کا استعمال کریں۔7۔کمانڈوز کو بس کے اگلے، درمیانے اور آخری حصے میں اس طرح بٹھایا جائے کہ وہ پوری بس پر نظر رکھ کر ایکشن کر سکیں۔8۔ان کی موجودگی سے بس روکنے پر فوری جوابی کارروائی کرکے دہشت گردوں کا خاتمہ ممکن ہے۔9۔یہ کمانڈوز اس کے علاوہ قریب موجود سیکورٹی اداروں اور فورسز کو وائرلیس ، موبائل فون یا محفوظ نیٹ ورک سے اطلاع دے سکتے ہیں تاکہ RRFریپڈ رسپانس فورس حرکت میں آجائے اور نہ صرف موقع پر پہنچ جائے بلکہ ارگرد کے علاقوں میں دہشت گردوں کے ہمدرد یا مددگار افراد کو بھی گرفتار کر سکے۔10۔اس سلسلے میں خطرناک علاقوں میں (Covert) یعنی پوشید ہ چوکیاں قائم کی جا سکتی ہے۔ان اقدامات کے ساتھ میری تجاویز کا دوسرا اہم پہلو آرمی ایوی ایشن اور پی اے ایف کے متعلق ہے۔ کسی بھی مسافر بس یا ٹرین کے اغوایا اس پر حملے کی اطلاع پر ہیلی کاپٹر ریپڈ ریسپانس ٹیم اُڑان بھرے، جس میں تربیت یافتہ کمانڈوز، اسنائپرز اور دیگر معاون عملہ موجود ہو، بلوچستان ایک وسیع و عریض صوبہ ہے، دشوارگزار راستے، صحرا، دریا، وادیاں، پہاڑ، زمینی رسپانس میں تاخیر اور رکاوٹ ہیں،تاہم فضائی مدد کارگر ثابت ہو سکتی ہے۔ ہیلی کاپٹرز کے علاوہ چھوٹے جہاز اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، کیونکہ وہ سڑک یا اسٹرپ Strip پربھی لینڈ اور ٹیک آف کر سکتے ہیں۔میری مندرجہ بالا تجاویز صرف مفروضہ یا تھیوری ہی نہیں ہیں بلکہ سعودی عرب میں نوے کی دہائی میں ریاض تا جدہ شاہراہ پر چند مسلح ڈکیتیوں نے حکومت کو پریشان اور شرمندہ کر دیا۔ سعودی حکومت نے فوری طور پر ہر پانچویں ٹیکسی اور ہر ساتویں بس میں سادہ لباس مسلح اہلکار بٹھانا شروع کر دیئے۔چند دنوں میں فوری زمینی اور ہوائی کارروائی کے نتیجےمیں یمن سے آکر سعودی عرب کی شاہراؤں پر ڈکیتی کرنے والے افراد گرفتار کرکے ان کے سرقلم کر دیئے گئے۔ وارداتیں اپنے انجام کو پہنچ گئیں۔ اب سڑکوں، شاہراؤں اور شہروں میں امن و امان کی مکمل حکمرانی ہے۔ان تمام تجاویز و اقدامات کے علاوہ مسافر بسوں میں GPSجی پی ایس ٹریکنگ سسٹم ،خفیہ کیمرے، ڈیش کیم (Dashcams) اور پنک اسٹک نصب کئے جا سکتے ہیں۔ یہ تمام آلات ایمرجنسی کی صورت میں کنٹرول روم یا گردونواح میں موجود چوکیوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو فوری طور مطلع کر سکتے ہیں۔بسوں کی رئیل ٹائم لوکیشن،اصل لوکیشن مانیٹر ہو سکتی ہے۔ قانون نافذ کرنے والے تمام ادارے فوج، پولیس، ایف سی، لیویز، رینجرز کے درمیان ایک مضبوط ،مربوط اور محفوظ نیٹ ورک کامیابی کی ضمانت ہوگا۔ زمینی اور فضائی فورسز کا مشترکہ ایکشن فتح کی نوید ہوگا۔میری یہ تحریر ایک دل شکستہ اور دردمند عام پاکستانی کی پکارہے، فریاد ہے، التجا ہے۔ دعا ہے ۔کسی بھی انسان کو نسلی ،مذہبی یا گروہی بنیاد پر قتل کرنا ظلمِ عظیم ہے۔غیر انسانی ، غیر آئینی اور غیر قانونی ہے۔ یہ واقعات پاکستان کے وجود پر حملہ ہیں،ان کا پوری قوت ،طاقت اور وسائل سے جواب دینا ہوگا۔بے گناہ مرحومین کا انتقام بھی وقت کی آواز ہے، وہ صرف اس لئے مارے گئے کہ وہ پاکستانی تھے۔ پاکستان سے محبت کرتے تھے۔ اسی محبت میں صوبہ بلوچستان میں مشکلات کے باوجود اپنے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ ریاست جاگ گئی تو سب محفوظ ہو جائیں گے۔

تازہ ترین