ترکمانستان کی اصل ترک ہے اور’ ترک‘ سے عاشق، سپاہی اور مسلمان مراد لیاجاتارہاہے ۔شعری روایت کے مطابق جب ترک ِغمزہ زن مقابل ہوتو آنکھیں ہی نہیں دل بھی اسی سے معمورہوتاہے ۔ ترک غمزہ زن کے ذکرسے شروع ہونے والی فیضی کی جوغزل سیدامتیازعلی تاج نے اپنے شاہ کار ڈرامے ’’انارکلی ‘‘میں شامل کی تھی اس کا بیت الغزل بتارہاہے کہ دیکھنے والوں کی نگاہ میں تو محبوب محفل نشیں ہوتاہے لیکن حقیقت میں وہ کہیں اوریعنی اپنے عاشق کے نہاں خانہء دل میں جاگزیں ہوتاہے :
آرام کردئہ ای بہ نہاں خانہء دلم
خلقی دریںگمان کہ بہ محفل نشستہ ای
ہم بھی بہ ظاہر تو تہران سے ترکمانستان جانے والی بس میں بیٹھے تھے لیکن ہمارادل منزلوں منزلوں بھٹک رہاتھا اور طرح طرح کے خیالات اور سوالات اس میں جاگزیں تھے ۔ہم اقبال کے توسط سے شکوہ ِترکمانی اور ترکمان سخت کوش سے توواقف تھے لیکن یہ نہیں جانتے تھے کہ ترکمانستان کیسا ملک ہوگا؟ترک اور ترکمانستان میں کیا فرق ہے ؟ ہم کب وہاں پہنچیں گے ؟ہمیں وہاں کتنی دیر قیام کرناہوگا؟لوگ کیسے ہوں گے، سرحدکیسے پارکی جائے گی ؟
تہران سے چل کر مسلسل بیس گھنٹے تک ہم بس میں بیٹھے رہے ،بس تو نہیں چل رہاتھا لیکن خداکاشکر ہے کہ بس بہ ہر حال چل رہی تھی، خراماں خراماں، سہج سہج کر ۔سفر میں رات آئی تو مجھے منیرنیازی کی کتاب’’ سفردی رات‘‘ یاد آگئی جسکی ایک نظم پر میںنے کبھی پنجابی میں ایک مضمون بھی لکھاتھا۔اس کتاب کی ایک تیکھی نظم کاعنوان ہی کتاب کانام قرارپایاہے۔
ہم اپنے گھربار چھوڑکر یکایک ایران سے نکل رہے تھے،جنگی حالات کے باعث زیادہ سامان ساتھ نہ لے جانے کی ہدایت تھی ۔رات شب فراق کی طرح طول پکڑگئی تو مسافر عالم خواب میں چلے گئے ۔ پورے ماحول میں ایک ڈرائیورہی تھاجو جاگ رہاتھا، ہمارے ہاں توایسے میں ڈرائیورکا ساتھی اس کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کیاکرتاہے لیکن میں دیکھ رہاتھا کہ ڈرائیورکے ساتھ کوئی نہیں ہے۔ رات کی اس گہری تاریکی اور تمام مسافروں کے ڈولتے سروں اور خواب آلود سُروں سے بھرپور ماحول میں مجھے وہ بالکل تنہادکھائی دیا،مسافروں کے آرام کے خیال سے گاڑی کے داخلی چراغ بجھادیے گئے تھے۔ میں اپنی نشست سے اٹھا اور موبائل ہاتھ میں تھامے تمام مسافروں کے پا س سے گزرتا اور ڈگمگاتا ہوا ڈرائیورکے پاس پہنچا۔ وہ سڑک پر نظریں جمائے کسی صوفی کی طرح ،اپنی دنیائے تخیل میں گم تھایوں لگ رہاتھا جیسے وہ مراقبے کی حالت میں ہو، ہرجانب سناٹاتھا، میںنے اس سے بات کرنے کا بہانہ یہ تلاش کیاکہ میں اسے اپناموبائل چارجنگ پر لگانے کے لیے کہوں ۔ایران میںبس ڈرائیورکی نشست مسافروں کی نشستوں سے کافی نیچے کی سطح پرہوتی ہے ،اس نے مجھے احتیاط سے نیچے اترنے اور موبائل کو چارجرمیں لگانے کے لیے کہا ۔اس نے ’’نگاہ کنید تانیفتی‘‘ (دیکھیں آپ کہیں گرنہ جائیں )کے الفاظ اداکیے تومجھے اطمینان ہواکہ وہ بیداری کے عالم میں ہے اور میں اپنی نشست پر لوٹ آیا ۔ایران کاانفراسٹرکچراتناعمدہ ہے کہ بیس گھنٹے کے سفر میں کوئی مقام ایسانہیں آیاجہاں سڑک ٹوٹ پھوٹ کاشکارہواورراہ کی ٹھوکروں سے مسافروں کی نیندمیں خلل آجائے ،لوگ صبح تک سوتے رہے ۔میںنے اپنے معمولات پورے کرلیے تھے، اس لیے لیپ ٹاپ نکالااور ڈائری لکھنے لگا لیکن جلد بوریت ہونے لگی اور لیپ ٹاپ بندکردیا۔ ترکمانستان، ایران، افغانستان، آذربائیجان، ازبکستان اور تاجکستان میں گھراہواہے ۔ایران سے اس کی سرحد متصل ہے۔ پاکستان اور ترکمانستان کے درمیان افغانستان حائل ہے۔ تہران سے چلنے والے ہجرت زدہ مسافرایران کے سرحدی شہرلطف آبادکی جانب محوسفرتھے ۔ زیادہ علاقہ صحرائی اورغیرآبادتھا۔ صبح ہوئی تو کسی جگہ گاڑی رکی ،انگڑائیاں لیتے مسافر نیچے اترنے لگے لیکن یہاں کوئی واش روم نہیں تھا، معلوم نہیں ڈرائیورصاحب نے اس جگہ کاانتخاب کس خصوصیت کی بناپرکیاتھا؟وہ پہلے بھی بعض ایسے مقامات پر توقف کرچکے تھے جن کے’’ فضائل‘‘ سے مسافر بے خبرہی رہے ،یہاں پرایک چھوٹی سی دکان چلانے والے لڑکے کی والد ہ نے جب دیکھاکہ مسافر پریشانی کے عالم میں نامرادانہ واپس بس میں جارہے ہیں تواس نے حسن ِاخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے مجھ سے کہاکہ عقبی گلی میں کچھ انتظام ہوسکتاہے اورمجھے ساتھ لے جاکرایک نوتعمیرشدہ عمارت کے دروازے کھول دیے ،ہماری فارسی کام آئی اوریوں کچھ ذکورواناث اپنی ضروریات پوری کرسکے۔ میںنےاس مہربانی پرسب مسافروں کی جانب سے اظہارِسپاس کے لیے اس خاتون کوکچھ ہدیہ پیش کردیاوہ خوش ہوگئی اور ہم دوبارہ لطف آبادکی جانب روانہ ہوگئے۔اب تاریکی کاغلبہ ختم ہوچکاتھا،دن کی روشنی ہماری ہم سفرتھی اور ہم ایک بارپھر ایران کا خوب صورت لینڈ اسکیپ دیکھ رہے تھے۔ہمیں معلوم نہیں تھاکہ ابھی سرحدکتنی دورہے،ہم تو بس مسلسل سفرکررہے تھے ،دوران سفر کہیں جنگ کاکوئی اثردیکھنے میں نہیں آیایوں بھی ایرانی لوگ بڑے باہمت ہیں، ایران پر اسرائیلی حملے شروع ہونے کے بعدتہران میں جب کسی سے جنگ کا ذکرآتاتووہ کہتاکہ ہم پر تو آٹھ برس تک جنگ مسلط رہی ہے اس لیے ہم جنگ سے گھبرانے والے نہیں،ان کااشارہ ایران اورعراق کی طویل جنگ کی طرف ہوتا تھا جسے ایرانیوں نے جنگ تحمیلیImposed War کانام دے رکھاہے۔ اس سفرمیں ہم دامغان اور شاہرود دیکھ چکے تھے اب ہم سبزوارکے قریب تھے اس مہاجرت کا یہ فائدہ ہواکہ ہم نے سبزوارشہربھی دیکھ لیامجھے اس شہرسے نسبت رکھنے والے مشاہیر یادآئے ۔ملتان والے بزرگ سیدشمس الدین سبزواری (م:۱۲۷۶ء)جن کامزار قلعہ ملتان میں ہے اور جنھیں لوگ غلطی سے شمس تبریزی سمجھ لیاکرتے ہیں،ڈاکٹرشوکت سبزواری، جنھوں نے لسانیات ،لسانی مسائل،داستان زبان اردو،ارتقائے زبان، ،قواعداردواورفلسفہء کلام غالب پر وقیع ذخیرئہ کتب فراہم کیا اوراپنے وہ دوست جو سبزواری کہلاتے ہیں لیکن انھوں نے کبھی اپنے نام کا حصہ بن جانے والا سبزوار نہیں دیکھالیکن اب میں کھلی آنکھوں سے سبزوارشہرکودیکھ رہاتھاہماری منزل ایران کا سرحدی شہرلطف آبادتھی کچھ معلوم نہ تھاکہ ہمیںلطف آبادکالطف کب حاصل ہوگاتاہم ہماراسفر جاری تھا۔