• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب ہم گریٹر تھل جیسے منصوبے کی بات کرتے ہیں تو ہمیں تھل کی زمینوں پر ایک یلغار کی بات بھی کرنا پڑتی ہے جو کلیم مافیا کے ہاتھوں مقامی افراد سے جعلی کلیموں کے ذریعے چھینی گئی اور یہ مسئلہ بھی بحث طلب ہے تاہم پانی کے بغیر کسی بھی اراضی کی زندگی ناممکن ہے۔سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے دور اقتدار میں پانی کی تقسیم کا بین الصوبائی معاہدہ طے پایا اس وقت دریائے سندھ اور اس کے معاون دریاؤں جہلم، چناب، راوی، ستلج، بیاس، کابل اور کرم کا سالانہ اوسط بہاؤ 146ملین ایکڑ فٹ ہے۔ اس میں سے تقریباً 114ملین ایکڑ فٹ پانی ہر سال ملک میں موجود سینکڑوں نہروں میں چھوڑا جاتا۔ اس معاہدے میں خریف (اپریل تا ستمبر) اور ربیع (اکتوبر تا مارچ) کے موسموں کیلئے علیحدہ علیحدہ بھی پانی کا کوٹہ مختص کیا گیا۔ اس کے مطابق ہر موسمِ خریف میں پنجاب کو 37.07ملین ایکڑ فٹ، سندھ کو 33.94ملین ایکڑ فٹ، خیبر پختونخوا کو 3.48ملین ایکڑ فٹ اور بلوچستان کو 2.85ملین ایکڑ فٹ پانی ملنا چاہیے۔ اسی طرح ہر موسمِ ربیع میں پنجاب کے حصے میں 18.87ملین ایکڑ فٹ، سندھ کے حصے میں 14.82ملین ایکڑ فٹ، خیبر پختونخوا کے حصے میں 2.30ملین ایکڑ فٹ اور بلوچستان کے حصے میں 1.02ملین ایکڑ فٹ پانی آنا چاہیے۔ چونکہ موضوع ”گریٹر تھل کینال“ہے سو اس پر لکھنا ضروری ٹھہرا،پنجاب کے مغربی اور جنوبی اضلاع سے گزرنے والی نہروں میں سے ایک، چشمہ جہلم لنک کینال سے ضلع خوشاب کے مقام آدھی کوٹ پر 35کلومیٹر لمبی گریٹر تھل کینال نکالی گئی ہے۔ اس کی تعمیر جنرل پرویز مشرف کےدور حکومت میں2002 میں شروع ہوئی جوجون 2009 میں مکمل ہوئی۔ اس نہر سے تین سو 44کلومیٹر لمبی چار شاخیں نکالے جانے کا عندیہ دیا گیاجن کے ذریعے میانوالی، جھنگ، خوشاب، لیہ،بھکر اور مظفر گڑھ کے اضلاع میں 17لاکھ 38ہزار ایکڑ ایسی اراضی کو سیراب کرنا تھا جو تھل کے صحرا کا حصہ ہے۔ ان شاخوں میں سے منکیرہ برانچ تعمیر ہو چکی ہے اور چوبارہ برانچ کی تعمیر بھی اپنے آخری مراحل طے کرچکی ہےجبکہ ڈھنگانہ اور نورپور تھل برانچوں پربھی کام کیاجاچکا ہے۔اس منصوبہ کی سست روی کا پس منظر یہ ہے کہ سندھ کے کاشت کاروں اور سیاسی جماعتوں نے ہمیشہ گریٹر تھل کینال کی مخالفت کی ہے۔ لیکن اس کی تعمیر اس لیے ممکن ہوئی کہ جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت (2008-1999) میں اس صوبے میں ایک ایسی حکومت قائم تھی جس کا وجود مرکزی حکومت کی سرپرستی کا مرہونِ منت تھا۔ اس لیے اس صوبائی انتظامیہ کیلئے ممکن نہ تھا کہ وہ ایک ایسے منصوبے کو روک سکتی جسے مرکز اور پنجاب کے مقتدر حلقوں کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔ اگرچہ سندھ کی موجودہ حکومت نےگریٹر تھل کینال منصوبے میں شامل چوبارہ برانچ کی تعمیر کی شدید مخالفت کی لیکن اسکے باوجود اس کی تعمیر کیلئے درکار تمام انتظامی اور مالی اقدامات تیزی سےکیے گئے تاکہ اس کا تعمیراتی کام جلد از جلد شروع کیا جا سکے۔چوبارہ برانچ کے بننے سے صحرائے تھل میں رہنے والے لوگوں کی تقدیر بدل جائے گی۔ لیکن معاشی اور ماحولیاتی انصاف کی جہاں تک بات ہے اس کی تعمیر سے ان کے آبائی علاقے میں غیر مقامی لوگوں کی آبادی میں اضافہ ہو جائے گا۔ کیونکہ صحرا کے مقامی باشندوں کو اس طرح کے منصوبوں کی تعمیر کا فائدہ ہونے کے بجائے الٹا نقصان ہی ہوتا ہے۔ اس سے قبل مغربی پنجاب کے ضلع میانوالی میں کالا باغ کے مقام سے نکالی گئی تھل کینال دریائے سندھ کے مشرقی کنارے کے متوازی بہتی ہوئی لگ بھگ تین سو کلومیٹر جنوب میں ضلع مظفر گڑھ میں ختم ہوتی ہے۔ اس کی تعمیر 1939 میں شروع ہوئی لیکن دوسری عالمی جنگ اور تقسیمِ ہندوستان کی وجہ سے اس کی تکمیل اور اس سے سیراب ہونے والی زمین کی الاٹمنٹ ہونے میں مزید 15سال لگ گئے۔ مشرقی اور وسطی پنجاب کے علاقوں سے لوگوں کو زمین کی آبادکاری کے نام پر تھل میں لا کر اس نہر سے سیراب ہونے والے علاقوں میں بسایا گیا جسکے نتیجے میں تھل کی مقامی آبادی کئی جگہوں پر اقلیت بن کر رہ گئی۔ سب سے پہلے تھل کینال سے مہاجر برانچ کے نام سے ایک چھوٹی نہر نکال کر پنجاب کے مغربی اضلاع میانوالی اور خوشاب سے گزاری گئی اور اس کی سیراب کردہ بیشتر اراضی 1947میں مشرقی پنجاب سے آنے والے مہاجرین کو الاٹ کی گئی۔ ان کے مطابق بعد میں بھی مختلف اسکیموں کے تحت تھل کینال کے آس پاس کی لاکھوں ایکڑ زمین تھل سے باہر کے لوگوں کو دے دی گئی۔ ان میں ضلع قصور سے آئے وہ لوگ بھی شامل تھے جن کی زمینیں پاکستان اور انڈیا کے درمیان بنائی گئی سرحدی لائن کی نذر ہو گئی تھیں اور وہ لوگ بھی جنکے گھر، کھیت کھلیان اور چراگاہیں حکومت نے منگلا ڈیم اور اسلام آباد شہر بنانے کیلئے اپنے قبضے میں لے لی تھیں ۔ اس کا ثبوت تھل کے طول و عرض میں واقع ان بستیوں کی شکل میں موجود ہیں جو 1947کے بعد وجود میں آئیںاور جن کے رہنے والے لوگوں کی اکثریت یہاں دوسری جگہوں سے آ کر آباد ہوئی ہے۔ ضلع بھکر کی تحصیل منکیرہ اور ضلع لیہ کی تحصیل چوبارہ میں اس کا ایک ثبوت ان زرعی فارموں کی شکل میں بھی دیکھا جا سکتا ہے جن کے باہر لگے بڑے بڑے بورڈ بتاتے ہیں کہ ان کے مالک وسطی اور شمالی پنجاب کے اضلاع کے رہنے والے افراد ہیں۔ پاکستان میں بنجر زمین کو قابلِ کاشت بنانے کے نام پر جتنے بھی منصوبے بنائے جاتے رہے ہیں وہ دراصل ’’اشرافیہ ‘‘کو نواز نے کی چال ہوتے ہیں۔اس ضمن میں 1955 میں دریائے سندھ پر حیدرآباد کے قریب کوٹری بیراج کی تعمیر کی مثال کو لے لیں’’اس کا مقصد انڈیا سے آنے والے مہاجرین کی آبادکاری تھا لیکن یہاں اشرافیہ اورمخصوص افراد کونوازاگیا اور یہ زمینیں ان کے نام الاٹ ہوئیں یہی کچھ 1962ء میں بنائے گئے گدو بیراج کے علاقے میں بھی ہوا‘‘۔ گریٹر تھل کینال کے بارے میں تلھل کے مقامی باسیوں کے تحفظات ہیں کہ اس سے سیراب ہونے والی زمینیں بھی طاقتوراشرافیہ نے یا تو پہلے سے ہی الاٹ کرا لی ہیں یا خرید لی ہیں۔

تازہ ترین