میں نے بار ہا ایسی ویڈیوز دیکھ رکھی ہیں جن میں ترقی یافتہ ممالک کی ریسکیو ٹیمیں پانی میں پھنسے کتے کو بھی بچا لیتی ہیں،نالے میں گری گائے کو نکال لیتی ہیں۔ اسی طرح دلدل میں پھنسے ہرن کو نہایت احتیاط سے ریسکیو کرتے دکھایا جاتا ہے۔ ایک طرف میری نظروں میں یہ منظر لہراتے ہیں تو دوسری طرف 18 پاکستانیوں کی بے بسی کے منظر آنکھوں کو زخمی کر دیتے ہیں کہ کیسے 18جیتے جاگتے انسان دریائے سوات کے بپھرے پانی کے درمیان ڈیڑھ گھنٹے تک مددکیلئے پکارتے رہے مگرکوئی ان کو بچا نہ سکا۔
قارئین کرام آپ میری مدد فرمائیں اور بتائیں کہ اب میں یہ سوال پوچھوں تو کس سے پوچھوں ؟ آخر پاکستانیوں کا خون اتنا ارزاں کیوں ہے ؟ ویسے تو خون کی ارزانی کی داستان بہت طویل ہے۔ پچھتر سالہ تاریخ کا احاطہ کروں تو کالم کا دامن تنگ پڑ جائے ۔ بس حالیہ تین واقعات پر فوکس کریں کہ شاید ارباب اختیار کو کچھ عملی اقدامات کرنے کا خیال آ جائے۔
گزشتہ تجربہ تو یہی کہتا ہے کہ ہر بار کی طرح اب بھی دریائے سوات کا کیس ہو یا پاکپتن کا معاملہ یا کراچی میں عمارت کا گرنا، کچھ نمائشی اقدامات ہی ہوں گے اور بس.....! دریائے سوات میں ڈوبنے والوں کی ویڈیو جتنی بار بھی دیکھیں مجھے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم سب قصور وار ہیں ۔کتوں بلیوں کو ریسکیو کرنے والی قومیں ہم پر آوازے کسنے لگی ہیں کہ تم انسانوں کو نہیں بچا سکے ..... آئے روز کہیں انسانوں کو دریا بہا کر لے جاتا ہے..... کہیں ہسپتال میں زہریلے کھانوں سے بچے مر جاتے ہیں اور کہیں بوسیدہ عمارت گرنے سے پاکستانی جان سے چلے جاتے ہیں۔ کیا یہ ہمارا مقدر ہے؟ سستی ہے ؟ نااہلی ہے ؟ کرپشن ہے یا کچھ اور؟ جو کچھ بھی ہے یہ ہر پاکستانی کے لیے باعث شرمندگی ہے کہ ہم بحمدللہ جنگی ٹیکنالوجی میں تو اکیسویں صدی سے ہم آہنگ ہیں مگر حالت امن میں ہم آج بھی ازمنہ قدیم کے باشندے معلوم ہوتے ہیں کیونکہ آج بھی ہم ڈوبنے والوں کو ایک رسے کی مدد سے ہی بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم نے NDMA جیسے ادارے تو بنا ڈالے ہیں...... افسران بھاری تنخواہیں بھی لے رہے ہیں مگر کیا ہمارے پاس ایک کشتی تک نہیں؟ ہم نے اربوں روپے غرباء کو عارضی سپورٹ دینے کے لیے تو مختص کر ڈالے ہیں مگر ایسے موقعوں کے لیے ایک ہیلی کاپٹر تک مختص نہیں کر سکے..... عمارتوں کے تحفظ کے لیے محکمے تو کھڑے کر دیے ہیں مگر انہیں گرنے سے بچا نہیں سکتے..... خوراک اور میڈیکل سے متعلق طرح طرح کی ایجنسیاں اور ادارے تو قائم کر دیے ہیں مگر عوام کا تحفظ نہیں کر پاتے...... یہ نااہلی نہیں تو اور کیا ہے؟ نہ محکموں کے مابین کوئی کوارڈنیشن ہے نہ تعاون..... ہر کوئی دوسرے پر الزام دھر کے چین کی بانسری بجاتا ہے ۔ اگر کسی پر الزام آ بھی جائے تو اس کی سفارش اتنی تگڑی ہوتی ہے کہ کوئی اس کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔ قارئین کرام میرا خیال تھا کہ میں کالم ہذا میں ریسکیو کے حوالے سے کچھ تجاویز پیش کروں مگر سب بے سود دکھائی دیتا ہے ۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے۔ اگر اشرافیہ یہ جانتی ہے کہ چینی برآمد کر کے کس طرح درآمد کی جاتی ہے؟ تو کیا ہمارے ارباب اختیار یہ نہ جانتے ہوں گے کہ پانی میں پھنسے لوگوں کو کیسے ریسکیو کیا جاتا ہے؟ کیا این ڈی ایم اے کے کارکنان کو یہ معلوم نہ ہوگا کہ دنیا میں ایسے موقعوں پر کیا تراکیب اختیار کی جاتی ہیں؟۔ سب کو سب کچھ معلوم ہے۔ بات صرف ترجیح ، Implementation اور سزاؤں کی ہے۔ اگر ایک مرتبہ صحیح معنوں میں ذمہ داران کو کٹہرے میں کھڑا کر کے قرار واقعی سزا پر عمل درآمد ہو جائے تو آئندہ کبھی ایسے واقعات رونما نہ ہوں۔ مگر افسوس کہ ایسا پہلے ہوا ہے اور نہ اب ہوگا ........ وقتی طور پر دو چار افسر چند ماہ کے لیے معطل کر دیے جائیں گے۔ وقت گزر جائےگا اور پھر کوئی نیا حادثہ رونما ہوجائے گا۔ (خدا نخواستہ)
بہت سے لوگ سوات کیس میں یہ کہتے بھی سنے گئے ہیں کہ یہ خاندان خود موت کے منہ میں پہنچا ہے۔ انہیں دریا میں جانے اور سیلفیاں لینے کی کیا ضرورت تھی ؟ وغیرہ وغیرہ.....جی بالکل یہ بات بھی قابل توجہ اور تجزیہ طلب ہے کہ عوام کو کس طرح اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونا چاہیے؟ یہ ایک الگ موضوع ہے اس کے لیے الگ کالم درکار ہے تاہم یہ بات پتھر پہ لکیر ہے کہ غلطی عوام کی ہو یا نہ ہو ان کے جان و مال کا تحفظ اور خطرے میں ریسکیو کرنا ہر صورت میں سرکار اور سرکاری اداروں کی ذمہ داری ہے۔ وار ٹیکنالوجی میں کمال حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ حالت امن میں بھی عوام کے جان و مال کے تحفظ کے لئے ہر طرح کی ٹیکنالوجی کا استعمال کرنا قومی جنگی تیاریوں کا تسلسل سمجھنا چاہیے ۔