• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکی مصنف جیمز ڈبلیو سپین اپنی معرکۃ الآراء تصنیف THE PATHAN BORDERLAND میں پشتو لوک ادب کے زیر عنوان رقم طراز ہیں ’’بہت سے گیت اور کہانیاں جو پختونوں کے گائوں میں عام طور سے سنائی جاتی ہیں قرون وسطیٰ کی یورپ کے لوک ادب کی ہمہ گیری کی یاد تازہ کرتی ہیں۔ ایک بہت ہی مشہور گیت ’’زخمی دل‘‘ ایک کابلی نغمۂ محبت ہے جو بدلے ہوئے تال اور الفاظ کی ترمیم کے ساتھ برطانوی راج کے پختون سپاہیوں کی پسندیدہ MARCHING TUNE (مارچ دُھن) تھی‘‘۔ مذکورہ کتاب کا ترجمہ انجینئر سید وہاب برق نے ’’پختون سرزمین‘‘ کے نام سے کیا ہے۔ امریکی مصنف احمد شاہ ابدالی کی ادبی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’ 1761ء میں پانی پت کی جنگ میں مرہٹوں کو خاموش کرنے والے افغانستان کے بانی احمد شاہ ابدالی کی حکمرانی اگرچہ ایران، کشمیر اور شمالی ہندوستان کے بیشتر علاقوں تک دراز تھی لیکن رعایا کے ساتھ ساتھ شعروادب سے بھی غافل نہیں رہتے تھے۔ یہ امر خوشگوار حیرت کا باعث ہے کہ خونریز قومی زندگی کے برعکس ان کی ذاتی زندگی عجز اور خدا سے ربط و معافی کا شاہکار نمونہ تھی۔ ایک پشتو نظم میں کہتے ہیں’’اے فطرتِ انسان کی مکھی، خدا تجھے نیست و نابود کردے کہ تیری ناپاک بو نے کسی کا منہ آلودہ کئے بغیر نہیں چھوڑا‘‘
نفس و ذات کی خوشیوں کے تعاقب سے یہ اجتناب اس زبردست جنگجو ایشیائی سردار احمد شاہ کو ازمنۂ وسطیٰ اور تحریک احیائے علوم کے ابتدائی دور کے عیسائی شہزادوں سے مماثل بنالیتا ہے‘‘۔ پختونوں پر پختونوں سے زیادہ غیرپختونوں نے لکھا ہے۔ ہم میں سے جتنے اصحاب احمدشاہ ابدالی کے نام سے موسوم پاکستانی ’’ابدالی میزائل‘‘ سے واقف ہیں، اس کا عشرِعشیر بھی ابدالی کے کلام سے آشنا نہ ہوگا۔ یہ ابدالی بابا کا ہی شعر ہے
د دہلی تخت ہیرَوم چہ یاد کڑم
دخپل خُکلی پختونخوا دَ غرو سرونہ
فرماتے ہیں ’’دہلی کا تخت و تاج بھول جاتا ہوں جب کبھی مجھے پیارے پختونخوا کے کوہساروں کی چوٹیاں یاد آجاتی ہیں‘‘۔ کیا یہ دوعملی کا مضحکہ خیز نمونہ نہیں ہے کہ ہم ’’ابدالی میزائل‘‘ سے تو محبت کرتے ہیں اور ابدالی کے پختونخوا کا نام لبوں پر آتے ہی زبان پر چیونٹیاں رینگنے لگتی ہیں۔ غوری میزائل بھی ایک ایسے ہی افغان حکمراں سلطان غوری کے نام سے موسوم ہے۔ 1192ء میں جس کی فوج جب پرتھوی راج کے خلاف ہندوستان روانہ ہو رہی تھی تو اس میں شامل ایک جرنیل شاعر شکارندوی نے افغانوں کے جذبے کو مہمیز دینے کی خاطر جو شہرۂ آفاق نظم کہی اس کا ایک شعر یہ بھی تھا
پختونخوا خُکلی زلمی چہ زغلی ہند تہ
نو اغلیہ پیغلے کاندے اتنڑونہ
یعنی ’’پختونخواکے خوبرو جوان جب ہند کے معرکے کیلئے جاتے ہیں تو حسین دوشیزائیں اتنڑ (پختونوں کا روایتی رقص) کرتی ہیں‘‘۔
پختونوں نے بھی کیا بد، بخت پائی ہے کہ اپنے اور غیر ہر دو انہیں جنگ و نفرت کے ترازو میں تو تولتے ہیں لیکن اُلفت و آشتی کے یاد گیت بھی ان سے فراموش کرادیئے جاتے ہیں۔ جہاں انگریز اپنے دشمن جرمن و جاپان سے انتقام لینے کیلئے ایسی پشتو دُھنوں کا سہارا لیتے تھے کہ جس سے سرشار ہو کر پختون سرِ دار جا پہنچتے۔ بالکل اسی طرح آج بھی پختونوں کو یہ باور کرایا جاتاہے کہ ان کے دنیا میں آنے کا واحد مقصد مرنا اور مارنا ہی ہے ۔ خوشحال خان خٹک نے ایک نظم میں کہا تھا ’’پختون جہالت اور جنگ وجدل میں خوش ہیں، ایک پختون ہمیشہ دوسرے پختون کو نقصان پہنچانے کے درپے ہوتا ہے۔ اسی لئے مصائب ان کو ہمیشہ یاد رکھتے ہیں‘‘۔ ایک اور جگہ فرماتے ہیں ’’پختونوں میں احساس کی کمی ہے، وہ مغلوں کے ذبیح خانوں کے آگے بیٹھے ہیں، سامان سے لدا اونٹ ان کے گھر آیا ہے مگر یہ اس کے گلے کی گھنٹی ہتھیانے کیلئے باہم دست و گریباں ہیں!!! خوشحال بابا نے مذبح خانوں کے آگے بیٹھنے کے حوالے سے جس جانور سے تشبیہ دی ہے میں حقیر اسے ضابطۂ تحریر میں لانے کی استطاعت نہیں رکھتا…!!!
پاکستان کا فخر ابدالی اور غوری میزائل یوں یاد آئے کہ گزشتہ دنوں اکادمی ادبیات پاکستان، لیاقت نیشنل لائبریری کراچی میں منعقدہ ایک تقریب میں یہ سوال موضوع بحث بنا کہ آیا جبر کے موجودہ دور میں پشتون قلم کاروں کا قلم رواں ہے یا اس کی سیاہی جہالت کی سیاہی تلے مفقود ہوگئی ہے۔یعنی جب اُن کے اکابر میدانِ کارزار میں بھی شعر و ادب کا دامن تھامے رہے،تو معروضی صورت حال میں اُن کے وارث ضمیر کی عدالت میں کس قدر سرخرو ہیں۔ تقریب پشتو کے نامور ترقی پسند دانشور، شاعر، ادیب، صحافی، محقق، انجمن ترقی پسند مصنفین پاکستان کے سیکریٹری جنرل اور پشتو عالمی کانفرنس کے چیئرمین سلیم راز صاحب کی 75ویں سالگرہ کی مناسبت سے تھی۔ اہتمام ادبی ملگری کراچی اور پختون تھنکرز فورم نے کیا تھا۔ صدارت مسلم شمیم صاحب نے کی۔ ان دنوں ملک بھر میں سلیم راز کی سالگرہ پر تقریبات منعقد ہورہی ہیں، یہ تقریبات جہاں علم و فن کی چادر اوڑھے ہوئی ہیں وہاں یہ یوں بھی قابل ستائش ہیں کہ زندگی ہی میں ایک ایسی شخصیت کو خراج تحسین پیش کیا جارہا ہے جنہوں نے زندگی میں فروغِ ادب و محبت کے ماسوا کچھ کیا ہی نہیں ہے۔ 1957ء میں پہلی نظم کہی اور پھر مثلِ بحرِ بیکراں ان گنت حروف قلم سے قرطاس پر منتقل ہوتے چلے گئے۔ متعدد کتابیں لکھیں جن میں شعری مجموعے ’’د زخمونو پسرلے‘‘ اور ’’زہ لمحہ لمحہ قتلے گم‘‘ کے علاوہ تنقیدی مقالوں پر مشتتمل کتاب ’’تنقیدی کرخے‘‘ کو خاص کر شہرت ملی۔ سلیم راز متعدد اخبار و جرائد کے مدیر بھی رہے۔ آپ کی ادبی، صحافتی اور سیاسی خدمات ایک کالم میں تو کجا کئی نشستوں میں بھی سموئی نہیں جاسکتیں۔ تصور کیا جاسکتا ہے کہ 75 سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے آپ نے پشتو ادب کی آبیاری میں کس قدر گرانقدر حصہ ڈالا ہوگا۔ آپ عمر بھر فعال رہے اور اس عمر میں بھی آپ ملی جذبے سے سرشار اور جوانوں سے زیادہ تیز اور تازہ تر ہیں۔ آپ کا ایک بڑا کارنامہ 1987ء اور 2000ء میں پشتو عالمی کانفرنس کا انعقاد ہے۔ مولائے کریم سلیم راز صاحب کو صحت و زندگی عطا کرے کہ تاریکی کے اس دور میں آپ جیسے اصحاب ہی مینارِ نور ہیں۔ کچھ لمحے قبل نوجوان صحافی فضل عزیز کا پیغام موصول ہوا ہے کہ 8 جون کو جرس ادبی جرگے کے تحت پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے صوبائی سیکریٹریٹ کراچی میں سلیم راز کے اعزاز میں ایک اور تقریب پذیرائی منعقد ہوگی۔ قبل ازیں پروگرام کی اطلاع بھی دیرینہ دوست قاسم جان کے علاوہ ایک نوجوان صحافی ظفر کریمی نے دی تھی، کراچی کے پشتون صحافی ادب و ثقافت کے حوالے سے سرگرمیوں میں بھی پیش پیش ہیں۔ حالات کے جبر کے باعث نامور صحافی عبدالرحمان بونیری کے امریکہ، حنیف الرحمان اور شعیب یوسف زئی کے اسلام آباد چلے جانے کے بعد جمشید بخاری، شوکت خٹک، نعمت خان، نظیرعالم، ضیاء الرحمٰن ،امیر خان ان کے مشن کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بہرکیف سلیم راز کے اعزاز میں تقریبات یوں بھی حوصلہ افزا ہیں کہ چارسو بے قدری کے پھیلے اندھیروں میں اب بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو قوم کی خاطر زندگی وقف کرنے والوں کی قدر سے آگاہ ہیں۔
تازہ ترین