20 جولائی2025ءکے تاریخی فیصلے میں، 2006 ء ممبئی ٹرین دھماکوں کے کیس میں 12افراد (جن میں سے ایک دورانِ مقدمہ وفات پا چکا تھا) کو بری کر دیا گیا۔ یہ واقعہ 11جولائی 2006ءکو پیش آیا تھا جب مغربی لائن پر چلنے والی مقامی ٹرینوں میں سات دھماکوں سے 189افراد ہلاک اور 827زخمی ہوئے تھے۔ اس فیصلے نے عمر قید سے لیکر سزائے موت تک کی تمام سابقہ سزاؤں کو کالعدم کر دیا۔ اس کے بعد بھارتی حکومت کو دنیا میں فالس فلیگ آپریشنز کی ’’چیمپئن‘‘ تسلیم کرنا ناگزیر ہو گیا ہے، کیونکہ وہ اپنے ہی عوام کی جانیں قربان کرکے سیاسی مقاصد حاصل کرتی رہی ہے۔ ایسے واقعات عموماً اس مقصد کیلئےکیے جاتے ہیں کہ پاکستان کو، اور مجموعی طور پر مسلمانوں کو، دہشت گردی کا ذمہ دار ٹھہرایا جا سکے۔
اس تناظر میں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ نے، تاریخِ عدلیہ میں پہلی مرتبہ حکومت کے ساتھ ایسی غیر معمولی ہم آہنگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے، 2001ءپارلیمنٹ حملے کے کیس میں افضل گرو کو سزائے موت سنائی۔ حالانکہ عدالت نے خود اعتراف کیا کہ افضل گرو کے حملے کی منصوبہ بندی یا عمل درآمد میں براہِ راست ملوث ہونے کے شواہد نہیں ملے اور وہ کسی دہشت گرد تنظیم کا رکن بھی نہیں تھا۔ حیرت انگیز طور پر عدالت نے یہ کہتے ہوئے سزا دی کہ اس سے’’سماج کے اجتماعی ضمیر کو تسکین ملے گی۔‘‘
ریاستی سرپرستی میں کیے جانے والے یہ فالس فلیگ آپریشنز، جب 22اپریل 2025ءکے پہلگام قتل عام کے تناظر میں دیکھے جائیں، تو بھارت کے مکروہ طریقۂ کار کو واضح کرتے ہیں۔ 21 جولائی 2025ءکو، انڈین نیشنل کانگریس کے صدر اور راجیہ سبھا میں اپوزیشن لیڈر، مسٹر ملکارجن کھڑگے نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی کی ثالثی کے دعوے پر بھارتی حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا:’’میں نے پہلگام دہشت گرد حملے اور آپریشن سندور پر رول 267کے تحت نوٹس دیا ہے۔ آج تک دہشت گردوں کو نہ پکڑا گیا ہے نہ ہی مارا گیا۔ تمام جماعتوں نے حکومت کو غیر مشروط تعاون فراہم کیا۔ حکومت ہمیں بتائے کہ آخر کیا ہوا ہے۔‘‘
یہ امر بھی اہم ہے کہ پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف نے پہلگام واقعے کے فوراً بعد دہشت گردی کی تمام شکلوں کی مذمت کی، بھارت کے بے بنیاد الزامات کو رد کیا اور حملے کی شفاف، غیر جانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے اقوامِ متحدہ پر زور دیا کہ وہ جموں و کشمیر کے تنازع کو اپنی قراردادوں کے مطابق حل کرنے میں کردار ادا کرے، اور واضح کیا کہ پاکستان امن کا خواہاں ہے لیکن اگر اسکی خودمختاری کو للکارا گیا تو وہ بھرپور جواب دے گا۔
بھارت کے فالس فلیگ حربے کوئی نئی بات نہیں۔ اسی طرح کا طریقہ 14 فروری 2019 ء کے پلوامہ حملے میں اپنایا گیا، جب ایک خودکش بمبار نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں 46نیم فوجی اہلکاروں کو ہلاک کر دیا۔ حملے کے چند گھنٹوں کے اندر اُس وقت کے مرکزی وزیر ارون جیٹلی نے اعلان کر دیا کہ’’ بھارت،پاکستان کو عالمی برادری سے الگ کرنے کیلئے تمام ممکنہ سفارتی اقدامات کرے گا۔‘‘پاکستان نے اس کے برعکس کھلے عام شواہد مانگے اور تحقیقات میں تعاون کی پیشکش کی، جسے بھارت نے نظر انداز کر دیا۔
تقریباً ایک دہائی سے، بی جے پی/آر ایس ایس کی قیادت میں مودی حکومت جھوٹے دہشت گردی کے بیانیوں کے ذریعے پاکستان کو تنہا کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ ستمبر 2016 میں، وزیراعظم نریندر مودی نے کوژیکوڈ میں ایک تقریر کے دوران پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کی کھلی دھمکی دی تھی۔
ان حقائق، کانگریس صدر اور اپوزیشن لیڈر کے بیانات، اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی افواج کے نسل کشی اور جنگی جرائم کے بارے میں معتبر بھارتی و بین الاقوامی ذرائع کی دستاویزی شہادتوں کو دیکھتے ہوئے، یہ وقت کی ضرورت ہے کہ عالمی قیادت بالخصوص اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور تمام جی-20رہنمافی الفور کارروائی کریں۔ ’’جینو سائیڈ واچ‘‘کے پروفیسر گریگوری اسٹینٹن کی گواہی، جس میں 220 ملین بھارتی مسلمانوں کی ممکنہ نسل کشی سے خبردار کیا گیا ہے، اس معاملے کی سنگینی کو اور بڑھا دیتی ہے۔ یہ اخلاقی اور قانونی فریضہ ہے کہ بھارتی حکام اور مجرموں کو ہیگ کے بین الاقوامی جنگی جرائم ٹریبونل میں کٹہرے میں لایا جائے، اور بھارت کو جی-20سمیت تمام معتبر عالمی فورمز سے نکال دیا جائے۔ دنیا مزید یہ برداشت نہیں کر سکتی کہ وزیر اعظم نریندر دامودر داس مودی کے ساتھ بیٹھے، جنکے ہاتھ کشمیری اور بھارتی مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔
آخر میں اس بات کو انتہائی تشویش کے ساتھ اجاگر کرنا ضروری ہے کہ دو بار (فروری 2019 اور مئی 2025) دنیا محض امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مداخلت کی وجہ سے بھارت اور پاکستان کے درمیان ایٹمی تباہی سے بچی۔ یہ دونوں واقعات بھارتی غلط اندازوں اور پاکستان پر جارحانہ حملوں کے نتیجے میں پیش آئے، جو جھوٹے فالس فلیگ بیانیوں پر مبنی تھے۔ پاکستان، باوجود اس کے کہ اس کے پاس بھارت کی منصوبہ بندی کے ناقابل تردید شواہد تھےجن میں 11 مارچ 2025 کا جعفر ایکسپریس ہائی جیکنگ پلان بلوچستان بھی شامل ہے،نے انتہائی ضبط کا مظاہرہ کیا، متناسب ردعمل دیا اور کشیدگی کو بڑھنے سے روکا۔
لہٰذا یہ ضروری ہے کہ عالمی برادری خصوصاً صدر ٹرمپ فوری طور پر ایسے کنٹرول پروٹوکولز وضع کریں جو بھارت کی خفیہ کارروائیوں اور عسکری منصوبہ بندی کو پی-5ممالک کے مشترکہ میکنزم کے تحت مانیٹر کریں۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو دنیا تیسری اور شاید ناقابلِ قابو ایٹمی جنگ سے بچنے میں خوش قسمت نہ ہو۔