• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان آج جیسی متوازن اور کامیاب خارجہ حکمت عملی پر کاربند ہے وہ ایک ہی وقت میں نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ سینیٹر اسحاق ڈار کے دورۂ امریکہ اور فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کے دورۂ چین سے عیاں ہے۔دفتر خارجہ کے مطابق پاکستان اور امریکہ کے وزرائے خارجہ کی ملاقات میں دو طرفہ تجارتی و اقتصادی روابط کے فروغ، سرمایہ کاری، زراعت، ٹیکنالوجی و معدنیات سمیت اہم شعبہ جات میں تعاون پر تفصیلی گفتگو ہوئی ۔وزیر خارجہ نے حالیہ پاک بھارت کشیدگی میں صدر ٹرمپ کے کردار کو سراہتے ہوئے دوطرفہ تعلقات میں مزید وسعت و استحکام کی ضرورت کا اظہار کیا جبکہ امریکی وزیر خارجہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی لازوال قربانیوں اور عالمی و علاقائی امن کے حوالے سے پاکستان کے مثبت کردار کا فراخدلی سے اعتراف کیا۔دوسری جانب آرمی چیف سید عاصم منیر کے دورۂ چین میں نائب صدر ہان ژینگ ، وزیر خارجہ وانگ ژی، نائب چیئرمین سینٹرل ملٹری کمیشن جنرل ژانگ یو ژیا، پیپلز لبریشن آرمی کے سیاسی کمشنر جنرل چن ہوئی اور پی ایل اے آرمی کے چیف آف اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل کائی ژائی سے ملاقاتوں میں خطے اور دنیا کی بدلتی صورتحال، پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے اور مشترکہ جیوپولیٹیکل چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے مربوط حکمت عملی پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ چینی قیادت نے پاکستان کی مسلح افواج کو جنوبی ایشیا میں امن کی ضامن ایک مضبوط قوت قرار دیا۔پاک چین دوستی تو سدا بہار ہے اور عشروں سے وقت کی تمام آزمائشوں پر پورا اترتی چلی آرہی ہے لیکن پاکستان کے ساتھ امریکہ کے رویے میں مثبت تبدیلی واضح طور پر حالیہ چار روزہ پاک بھارت جنگ میں افواج پاکستان کی اُس غیر معمولی اور مثالی کارکردگی کے بعد رونما ہوئی ہے جس نے دس مئی کی صبح کے ابتدائی چند گھنٹوں میں بھارت کی سیاسی اور عسکری قیادت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ جو امریکی قیادت پاکستان کے خلاف بھارتی جارحیت کے آغاز میں جب دنیا بھر میں بالعموم یہ تاثر عام تھا کہ پاکستان کیلئے اپنے سے کئی گنا بڑی فوجی طاقت کا چند گھنٹے بھی مقابلہ کرنا محال ثابت ہوگا، جنگ بند کرانے کی کسی کوشش کے بجائے برملا عدم مداخلت کے اعلانات کررہی تھی، دس مئی کی شام ہی بھارتی قیادت کی درخواست پر جنگ بند کرانے کیلئے متحرک ہوگئی ۔یہی نہیں بلکہ جنگ بندی کے چند روز بعد ہی خود صدر ٹرمپ نے پاک فوج کے سربراہ کو اپنے خصوصی مہمان کے طور پر وائٹ ہاؤس میں ظہرانے پر مدعو کیا جہاں کئی گھنٹوں پر محیط گفت و شنید ہوئی۔ دوسری جانب پاک بھارت جنگ کے حوالے سے صدر ٹرمپ کے بیانات بھارتی قیادت کیلئے مسلسل سبکی اور رسوائی کا سبب بنتے رہے۔ پہلگام واقعے پر بھارتی مؤقف کو دنیا میں کہیں پذیرائی نہیں ملی اوراس کی فوجی طاقت کا بھرم بھی جاتا رہا حالانکہ اس سے پہلے دہشت گردی کے حوالے سے بھارت کے پاکستان مخالف پروپیگنڈے سے امریکی قیادت سمیت دنیا کے متعدد ممالک خاصے متاثر تھے۔دفاعی محاذ پر پاکستان کی اسی مثالی کارکردگی کا نتیجہ تھا کہ ایران اسرائیل جنگ کے دوران جس میں ٹرمپ انتظامیہ مکمل طور پر اسرائیل کے ساتھ تھی، پاکستان نے ایران کے اصولی مؤقف کی کھل کر حمایت کی اور امریکہ نے پاکستان کے خلاف کسی منفی ردعمل کا مظاہرہ نہیں کیا۔ ہماری قومی تاریخ میں شاید یہ پہلا دور ہے جب پاکستان امداد کے بجائے امریکہ سے برابری کی سطح پر بات کرتے ہوئے تجارتی روابط کے فروغ کی بات کررہا ہے۔ چین اور امریکہ جیسے دو حریف ملکوں سے بیک وقت اچھے تعلقات رکھ کر قومی مفادات کا حصول موجودہ خارجہ پالیسی کی غیر معمولی کامیابی مظہر ہے، یہ متوازن اور دانش مندانہ حکمت عملی جاری رہی تو ان شاء اللّٰہ پاکستان کیلئے روشن مستقبل کی راہیں کشادہ ہوتی چلی جائیں گی۔

تازہ ترین