• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جمعہ کے روز عدالت عظمیٰ میں ایک کیس کے سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی نے دوران سماعت جو ریمارکس دیئے انہیں اسی دن منعقدہ ایک سمپوزیم میں ان کے خطاب سے ملا کر دیکھا جائے تو جلد عدالتی فیصلوں کے ایجنڈے پر مبنی ایسی اصلاحات بروئے کار آنےکے امکانات نمایاں ہوتے ہیںجن میں مصنوعی ذہانت کے استعمال کے علاوہ دو شفٹوں میں عدالتی کام ہوتا بھی نظر آئیگا۔کرہ ارض میں رونما ہونیوالی تیز رفتار تبدیلیوں کا تقاضا بھی یہی ہے کہ جدید ٹیکنالوجی سے بھرپوراستفادہ کیا جائے۔ چیف جسٹس نے ایک کیس کے 33سال چلنے اور اسکے باوجود فیصلہ نہ ہونے کو عدالتی خامی قرار دیا ہے تو اسکی وجوہ کچھ تو ایک طرف نو آبادیاتی دور سے جاری عدالتی نظام کے طریق کار سے وابستہ ہیں، کچھ دیگر شعبوں کی طرح نچلی عدالتی سطح پر سرایت کر جانیوالی خامیوں میں موجود ہیں۔ جن کی اصلاحات کیلئے فریقین اور گواہوں کے آن لائن بیانات لینے سمیت بعض اقدامات کی افادیت نظر انداز نہیں کی جا سکتی۔ تاہم نیشنل جوڈیشل (پالیسی میکنگ کمیٹی) کے تحت چیف جسٹس کی طرف سے جامع اصلاحات کا جو ایجنڈا متعارف کرایا گیا اس کے ذریعے سول اور فوجداری مقدمات کے جلد تر فیصلوں کی راہ ہموار ہوئی ہے۔ مذکورہ ایجنڈا ضلعی سطح پر ججوں کو درپیش جذباتی، نفسیاتی اور ادارہ جاتی دبائو تسلیم کرنے کی اہمیت بھی اجاگر کرتا اور اصلاح احوال کے پہلو پیش نظر رکھتا ہے۔ جمعہ کی سماعت کے دوران چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے سرکاری چھٹیوں کو نکال کر عدالت کو ایک ماہ میں فیصلہ کرنے ، ضمانت مسترد ہونے پر فوری گرفتاری لازمی قرار دینے سمیت جو احکامات دیئے ان کے مثبت نتائج جلد متوقع ہیں نچلی عدلیہ کی افرادی طاقت سمیت اہم ضرورتوں کی تکمیل سے سائلین کو ایسی غیر یقینی صورت حال سے نکلنے میں مدد ملے گی جس میں بالخصوص جائیداد کے مقدمات کئی کئی نسلوں تک فیصلہ طلب رہتے ہیں۔

تازہ ترین