• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارے ایک معروف سیاستدان کی کم علمی چیختے حقائق پر پردہ نہیں ڈال سکتی۔ پاکستانی ایٹمی پروجیکٹ کے بانی ڈاکٹر عبدالقدیر خان جنوبی ایشیاء میں Balance of Terrorقائم کر کے نہ صرف پاکستانی ہیرو بلکہ پورے ایشیا کے ہیر وبن چُکے ہیں۔ وہ یورپ میں پُر آسائش زندگی کو خیر باد کہہ کر، اپنی زندگی خطرے میں ڈال کر وہاں سے ایٹمی فارمولا ساتھ لائے۔ یہ اُنکی محنت، قربانی، خلوص اور قابلیت ہی کا نتیجہ ہے کہ آج تمام ایشیاکے باسی سکون کی نیند سوتے ہیں۔ وگرنہ نریندر مُودی جیسے مذہبی جنونی اس خطے کی اینٹ سے اینٹ بجا کر ہیرو شیما اور ناگا ساکی سے بھی بُرا حال کر چکے ہوتے۔

پاکستانی ایٹم بم کے بننے میں ذوالفقار علی بھٹو اور میاں محمد نواز شریف کا یقیناً بہت بڑا کردار ہے۔ تاہم کسی کی ماں کے وجود سے انکار حقیقتاً اُس کی پیدائش سے ہی انکار ہے ۔اگر ماںنہیں پیدا ہوئی تو بچہ کہاں سے آیا؟ دُنیا کا سب سے بڑا سچ یہی ہے کہ پاکستانی ایٹم بم کی ماں عزت مآب ڈاکٹر عبدالقدیر خان مرحوم ہی ہیں۔ یورپ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے ، مقامی سفید فام خاتون سے شادی کر کے ہالینڈ میں بطورِ سائنسدان اعلیٰ معیار کی زندگی کو انہوں نے صرف اور صرف پاکستان کیلئے خیر باد کہا۔ اپنی غیر ملکی بیوی کو بھی اپنے ہی رنگ میں رنگ کے پاکستان کی خدمت کا جذبہ دل میں لئے یہاں پہنچ گئے۔ 1970ءکی دہائی کی ابتدا میں مردم شناس لیڈر وزیرِ اعظم کی کُرسی پر فائز تھے۔ اِسلئے Short sighted بیوروکریسی کے رکاوٹیں ڈالنے کے باوجود قدیر خان جیسا عظیم تحفہ پاکستان کو میسر آ گیا۔ اگر وزیرِ اعظم بھٹو ایک لمبی چوڑی میٹنگ بلا کر تمام متعلقہ سرکاری افسران کو یہ کہہ کر ڈانٹ نہ پلاتےکہ ’’ڈاکٹر صاحب کا حکم ، وزیرِ اعظم کا آرڈر سمجھا جائے‘‘ توشاید سول اور ملٹری بیوروکریسی حسبِ عادت انہیں کام شروع ہی نہ کرنے دیتی ۔اور قدیر خان جیسی عظیم اور مخلص شخصیت کو غیر مؤثراور ناکارہ بنا کر کہتی ’’دیکھا ہم نہ کہتے تھے، یہ آدمی کسی قابل نہیں‘‘۔ ماضی قریب کی مثال لیجیے ۔ جب وزیرِ اعظم نواز شریف 1998میں ایٹمی دھماکے کرنے کے فیصلے میں مصروف تھے تو یہ بات آن ریکارڈ ہے کہ اس وقت کے آرمی چیف جہانگیر کرامت نے ان دھماکوں کی مخالفت کی تھی۔ شاید اسی کے عوض ریٹائرمنٹ کے بعد امریکہ نے اُنہیں اپنے ملک میں نوکری دے دی تھی۔بالکل اِسی طرح کی مخالفت کا سامنا قدیر خان کو ابتدا میں کرنا پڑا تھا۔ مگر وہ پاکستان کا دفاع عظیم بنانے کی خاطر’’کشتیاں جلا کر‘‘ وطن لوٹے تھے۔ پس وہ کارنامہ انجام دے دیا۔ جس کا انڈیا اور پاکستان میں گمان بھی کرنا مشکل تھا۔ 1973میں پروجیکٹ کی بنیادیں رکھیں۔ اچھے لیڈر کی طرح مؤثر ٹیم بنائی۔ اپنی اور اپنی ٹیم کی کمٹنمنٹ سے چند ہی سال میں خفیہ طریقے سے ایٹم بنانے کی صلاحیت حاصل کر لی۔ تاہم امریکہ اور دیگر سُپر پاوروں کی ناراضی سے بچنے کی خاطرکسی پاکستانی حکومت نے اس کا اعلان نہ کیا۔ جب 1984 میں بھارت نے پہلا ایٹمی دھماکہ کیا تو اُس وقت کے فوجی ڈکٹیٹر ضیاالحق کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے کہنے پر سینٹر مشاہد حسین ،بھارتی سینئر صحافی کلدیپ نیئر کو ڈاکٹر قدیر خان کے پاس لے گئے کہ وہ اُن کی اپنی زبان سے سُن لیں کہ پاکستان کے پاس بھی ایٹم بم بنانے کی صلاحیت ہے۔ جب یہ خبر بھارت میں چھپ گئی، اصل مقصد حاصل ہو گیا تو بین الاقوامی سیاسی وجوہات کی بنا پر پاکستانی حکومتِ وقت نے اس کی تردید کر دی۔ حالانکہ یہ ملاقات ہوئی ہی حکومت کی شہ پر تھی۔ وگرنہ یہ کیسے ممکن تھا کہ جب حکومتِ وقت کے حرفِ آخر ڈکٹیٹر ضیاالحق نے کہا تھا ’’ہم تو ڈاکٹر قدیر خان کے سانس تک گِن رہے ہیں‘‘ اس لئے اس کی کوئی اور توجیہہ ہو ہی نہیں سکتی کہ خود جنرل ضیاالحق نے اس ملاقات کا اہتمام کیا تھا تاکہ انڈیا کسی زعم میں آ کر کوئی’’شرارت‘‘ نہ کر ڈالے ۔ تاہم اگر یہ بات کوئی جرنیل یا لیڈر کہتا تو انڈیا کو یقین کرنے میں دِقت پیش آتی۔ اسلئے بھارتی صحافی کو ایٹم بم کی ماں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی زبان سے یہ بات سُنوائی گئی۔ اسلئےہمارے جہاندیدہ سیاستدان ،قدیر خان کی عظمت کیخلاف آخری فوجی ڈکٹیٹر جنرل مشرف کی زبان نہ بولیں۔ یہ بھی مت بھولیں کہ جب جنرل مشرف نے اپنے دورِ حکومت میں اپنے بندے بھیج کر مذکورہ سیاستدان کو بےتوقیر کیا تو صرف اور صرف میں نے اس مذموم حرکت کے خلاف آواز اُٹھائی تھی، میں نےان کے حق میں ایک معتبر انگریزی روز نامے کے ادارتی صفحے پر آدھے صفحے کا کالم تحریر کر کے جنرل مشرف پر لعن طعن کی تھی۔اُس کالم کا عنوان تھا ۔The Danger from within۔ اُن کی زندگی کے آخری 20سال میں امریکی ایجنٹ، بینظیر بھٹو شہید کے قاتل، فوجی ڈکٹیٹر جنرل مشرف اور اس کی باقیات نے قدیر خان کو اتنا ذلیل و خوار کیا کہ انہیں ایک سیمینار میں اپنا یہ شعر کہنا پڑا۔

گزر تو خیر گئی ہے تیری حیات قدیر

ستم ظریف مگر کوفیوں میں گزری ہے

ڈاکٹر عبدالقدیر خان بہت بڑے آدمی تھے اور اس طرح کے بڑے لوگ ہم جیسے عام لوگوں کو انسپائر کرتے ہیں۔ میں بھی اِن سے انسپائر ہوا تھا۔ آکسفورڈ،کیمبرج یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد، لندن میں بہترین جاب اور روشن مستقبل چھوڑ چھاڑ کر صرف اور صرف پاکستان کی خدمت کے جذبے سے اپنے ملک لوٹا تھا۔ تاہم قدیر خان کورسوا کرنے والے گروہ نے ہی مجھے کچھ بھی نہ کرنے دیا۔ اُن کے جبر اور ظلم و ستم کا دُکھ بیان کرنے کی خاطر میں نے پوری غزل لکھ ماری ۔ جسکے صرف تین اشعار پیشِ خدمت ہیں۔

ہر چیز دسترس میں تھی ارضِ وطن سے دور

آ کر وطن میں خواب مرے چُور ہو گئے

لوٹے تھے دل میں جذبہء تعمیر لے کے ہم

جذبے فضائے جبر میں مَقہُور ہو گئے

گرچہ نویدؔ مجھ کو ہے ناکامیوں کا غم

ہوں مطمئن کہ لوگ بُرے دُور ہو گئے

تازہ ترین