• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وطن عزیز پاکستان میں ایک بار پھر طوفانی بارشوں نے تباہی مچا دی ہے ۔ گلگت بلتستان ، خیبر پختونخوا سمیت پنجاب میں حکومتی مشینری سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ناکام دکھائی دیتی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ کئی سال سے مون سون کی شدت بڑھ گئی ہے مگر ہماری بے بسی اور بدانتظامی کا عالم یہ ہے کہ پہاڑی علاقوں سے لیکر میدانی علاقوں تک سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کیلئے ہمارے پاس کوئی خاطر خواہ پلان یا انتظام نہیں ۔ چلاس ، دیامر کے علاقوں کا رابطہ ملک سے منقطع ہو گیا ہے ۔ پل ٹوٹ گئے ہیں اور سیاح کئی علاقوں میں پھنسے ہوئے ہیں جبکہ دوسری طرف پنجاب کے کئی شہر بھی سیلاب میںڈوب گئے ہیں ۔ فصلیں زیر آب آنے سے بھی خاصا نقصان پہنچا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ این ڈی ایم اے اور پی ڈی ایم اے کے ادارے کہاں ہیں ؟ ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے ادارے آخر کس مرض کی دواہیں ؟ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان میں پلاننگ کی کمی اور بہتر مینجمنٹ کا فقدان ہے ۔ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ ماضی اور موجودہ سب حکمرانوںکو عوامی مشکلات سے کوئی سروکار نہیں۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کسی بھی آفت یا پریشانی سے بچنےکیلئے کوئی انتظامات قبل از وقت نہیں کیے جاتے ۔ جب کوئی سانحہ رونما ہو جاتا ہے تو پھر ہاہا کار مچ جاتی ہے ۔ ہر سال جولائی ، اگست میں موسلادھار بارشیں ہوتی ہیں ۔ سیلابی پانی تباہی مچاتا ہوا گزر جاتا ہے۔ پاکستان میں تربیلا ، منگلا ڈیم کے کافی عرصہ کے بعد اب دیامر بھاشا ڈیم بنا ہے ۔ ہمارا ہمسایہ ملک بھارت چھوٹے بڑے 62 ڈیم بنا چکا ہے لیکن ہم ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں ۔ اگر پاکستان میں بھی کئی اور ڈیم اب تک بن چکے ہوتے تو آج اتنا سیلابی نقصان نہ ہوتا اور ذخیرہ کیے گئے پانی سے زراعت کو بھی فائدہ پہنچتا۔

اس وقت ملک بھر میں مون سون کی شدید بارشوں، طغیانی، لینڈ سلائیڈنگ اور دیگر حادثات میں اب تک 300سے زائد افراد جاں بحق اور 598 زخمی ہو چکے ہیں، جن میں 118بچے بھی شامل ہیں۔16جون سے اب تک 826 مکانات کو نقصان پہنچا، سینکڑوں مویشی ہلاک ہو چکے ہیں۔پورے ملک میں سیلاب کی تباہ کاریاں ابھی تک جاری ہیں۔ دریائوں میں طغیانی، پہاڑی تودوں کے گرنے اور ندی نالوں کے بپھرنے سے سڑکیں، پل اور انفراسٹرکچر بری طرح متاثر ہوا ہے۔ سب سے زیادہ ہلاکتیں 176پنجاب میں ہوئیں، خیبر پختونخوا میں 84، سندھ میں 24، بلوچستان میں 16، آزاد کشمیر و اسلام آباد میں دو، دو اموات رپورٹ ہوئیں۔ گزشتہ 24گھنٹوں میں مزید21افراد جان سے گئے جبکہ سوات، باجوڑ، بونیر، اپر کوہستان، دیامر، استور اور گلگت بلتستان میں بچوں سمیت 11مزید جانیں ضائع ہوئیں، وقت کا تقاضا ہے کہ سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچنے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر ٹھو س اقدامات کئے جائیں۔ پوری قوم سوال پوچھتی ہے کہ حکومتی اداروں کی موجودگی کے با وجود اتنا نقصان کیسے ہو گیا؟ غفلت کا ارتکاب کرنے والوں سے سختی سے نمٹا جائے۔ پاکستان کو بھارتی آبی جارحیت اور سیلابی صورتحال سے محفوظ رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ کالا باغ ڈیم سمیت تمام چھوٹے بڑے ڈیمز تعمیر کئے جائیں۔ ایک طرف ملک اس وقت پانی کی شدید کمی کا شکار ہے جبکہ دوسری جانب ہر سال 27 ارب ڈالر کا2 کروڑ 70 لاکھ کیوسک پانی سمندر برد ہو جا تا ہے۔ 2018 میں پہلی بار پاکستان نے ایک قومی آبی پالیسی بنائی، جس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ بارش کے پانی کو محفوظ کرنے کے نظام وضع کیے جائیں گے۔ پنجاب میں 2023 میں نہری اور دریائی نظام کا نیا قانون منظور ہوا ہے جس میں زیر زمین پانی کے انتظام اور سیلاب کی روک تھام کیلئے اقدامات کرنے کا فیصلہ ہوا تھا مگر المیہ یہ ہے کہ دیگر منصوبوں کی طرح یہ منصوبہ بھی ابھی تک ادھورا اور کاغذی ہی ہے۔ اس طرح کے کئی خوشنما منصوبے ہمارے سرکاری دفاتر کی فائلوں میں دبے رہتے ہیں ۔ دنیا بھر میں ہائیڈرو پراجیکٹس سے سستی بجلی پیدا کی جاتی ہے لیکن پاکستان میں الٹی گنگا ہی بہتی ہے ہمارے ہاں کول اور تھرمل پاور پلانٹس سے انتہائی مہنگی بجلی پیدا کر کے عوام کا خون نچوڑا جارہا ہے ۔ پاکستان میں ریزروائر بنے ہوتے تو آج مہنگی بجلی سے عوام کی جان چھوٹ جاتی ۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی حالیہ رپورٹ میں بھی بجلی کی 8 تقسیم کار کمپنیوں میں مبینہ مالی بے ضابطگیوں اور 244 ارب روپے کی اووربلنگ کا انکشاف کیا گیا ہے جو کہ افسوس ناک امر ہے۔ بجلی تقسیم کار کمپنیاں اپنے لائن لاسز پورے کرنے اور اپنی ناقص کارکردگی چھپانے کیلئے اووربلنگ میں ملوث ہیں۔ امر واقعہ یہ ہے کہ 5 تقسیم کار کمپنیوں نے صارفین کو 47.81 ارب کی اووربلنگ کی اور صرف ایک ماہ میں 2 لاکھ 78 ہزار 649 صارفین کو 47 ارب 81 کروڑ کے اضافی بل بھیجے گئے حیرت یہ ہے کہ اس میں ملوث افسران کے خلاف کارروائی نہیں کی جا رہی۔سال 2023-24 میں صارفین کو 90 کروڑ 46 لاکھ بجلی یونٹس کا اضافی بل بھیجا گیا۔ جبکہ زرعی صارفین کو اووربلنگ 148 ارب روپے سے زائد ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ سرکاری اداروں میں کرپشن اور قواعد کی بے ضابطگیاں معمول بن چکیںجس سے قومی خزانے کو اربوں کا نقصان اور کرپشن اور لوٹ مار میں اضافہ ہوتا ہے۔ سرکاری وسائل کی لوٹ مار کسی ایک محکمے یا ادارے تک محدود نہیں بلکہ محکمہ ریونیو سے لے کر تعلیم ، صحت اور پولیس ہر جگہ جس کا جتنا بس چلتا ہے وہ قومی خزانے پر ہاتھ صاف کر رہا ہے۔ پنجاب میں 10کھرب کی مالی بے ضابطگیوں کے بعد اب وفاقی وزارتوں میں بھی 1100ارب روپے کی کرپشن سامنے آ گئی ہے،لگتا ہے کہ حکومت کو بچانے کیلئے ہر ادارے میں کرپشن کو کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے ۔سوالات اٹھانے والوں کو پیکا ایکٹ کے تحت دھمکانا معمول بن چکا ہے۔حکومت اپنے لئے خود ہی مسائل پیدا کر رہی ہے۔ سرکاری اداروں میں شفافیت یقینی بنانے کیلئےکڑے احتساب کا نظام متعارف کرانے کے ساتھ ساتھ سرکاری اداروں میں سیاسی مداخلت کا خاتمہ بھی ضروری ہے تاکہ کرپشن کے دروازے ہمیشہ کیلئے بند ہو سکیں۔

تازہ ترین