• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پانی زندگی ہے، اور جسم سے وادیوں ، سمندروں ، میدانوں اور گلستانوں کا یونیورسل محلل۔ آسمان سے ٹپکنے والی بوندیں ہوں ، برف پگھل کر بننے والے آبشاریں ، یا پتوں پر نمودار ہونے والی شبنم، چاہے وہ بخارات ہوں جو مائع سے ناتا توڑ کر گیس بن جانے کے در پے یا پھر دریاؤں کے تازہ اور سمندروں کے نمکین پانی کے عین وسط میں بن جانے والے ڈیلٹا ۔ ان سب قطروں اور تلاطم خیز موجوں کو خاص سمت اور ولاسٹی چاہئے ، جسمانی محلول بننے سے ایکوسسٹم آبیاری تک ، پس اس کا راستہ روکنا ظلم اور جرم ہے! یہ ظلم ناقابلِ معافی ہے چاہے سندھ طاس معاہدے کو سبوتاژ کرنے والا بھارت ہو ، یا عین کنارے پر گھر بنانے والا باپ ، وہ سب مجرم ہیں جو پانی کو روکیں.. کہ پانی کو بلاوجہ روکنے والے آخر پانی پانی ہوتے ہیں ۔ گویا پانی کا ڈیلٹا تک بھی جانا ضروری ہے۔پاکستان میں سندھ اور بحیرہ عرب کے درمیان پایا جانے والا ڈیلٹا دنیا کا پانچواں بڑا ڈیلٹا اور اس میں موجود مینگروو دنیا کا ساتواں بڑا جنگل ہے۔ ہمارے ہاں سیاسی پروپیگنڈا اور کم علمی کی بنیاد پر ایک غلط فہمی پائی جاتی ہے دریائے سندھ کو سمندر میں پھینک کر ضائع کردیا جاتا ہے۔ بہرحال ہر موسم میں دریاؤں کے آگے ساری مرضی انسان یا سندھ کی نہیں چلتی، اور نہ مرضی کشمیری و چینی و افغانی پہاڑوں کی ممکن ہے۔ دوسری بات یہ کہ سمندر اور زمین کے درمیان ایک آبی و زمینی ایکوسسٹم بنتا ہے جو زرخیزی، جنگلات، فشریز ہی کو نیا جہان نہیں دیتا سمندری طوفانوں سے انسانی و حیوانی و نباتاتی جہان کو بچاتا بھی ہے، سارے دریا ڈیلٹا نہیں بناتے وہ پیچھے اپنی جھیلوں ہی تک اپنی مٹی اور پانی چھوڑ آتے ہیں۔ دریائے سندھ کے علاوہ دریائے نیل، اوری نیکو، ڈینیوب، والگا، فرات اور گنگا وہ دریا ہیں جو ڈیلٹا بناتے ہیں تاہم گنگا کے ڈیلٹا کی زمین اس لئے دلدلی ہو گئی اور ڈیلٹا نہیں بناتی کہ اس کے دہانے پر دریائے برہم پتر ہے ، اور یہ اس میں جا گرتا ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ پاکستان ہی کو ہے اور کیا طوفانی موسموں کے آگے انسان اس لئے خود سوزی کے دہانے پر بیٹھا رہے کہ’’قدرت کو یہی منظور ہے‘‘؟ جواب یہ کہ پہاڑ پر دریا کے عین کنارے اور پہاڑی چوٹی تلے بننے والے یا خشک علاقوں میں دریا کے اندر تک جا مسکن بنانے والوں سے گاؤں، شہر ، صوبہ ، ملک اور بین الاقوامی سطح پر سب طوفانوں سے نبرد آزما ہونا بغیر کسی مسنگ لنک کے ضروری ہے ورنہ موت کی آغوش ہی ہے۔ یقیناً کچھ طوفان مغرب تا تھرڈ ورلڈ سرپرائز دے دیتے ہیں لیکن رسک اور جانی و مالی نقصان کو کم کیا جا سکتا ہے۔ معلوم ہے کہ ہمارے جولائی سے ستمبر تک بارشوں کا موسم ہوتا ہے جن میں کچھ بھی ہو سکتا ہے تو کیا رسک کی بنیاد پر دریاؤں ، پہاڑوں اور سلائیڈنگ کے علاقوں میں بنے گھروں ، ہوٹلوں اور تفریحی مقامات کے حادثات کو تدابیر اور جدید حفاظتی اقدامات سے کس نے روکنا ہے؟ مظفرآباد وادی سے اوپر والے درختوں کو سیاستدانوں اور سماجی کارکنان کے کمپرومائز نے نہیں کٹوایا ؟ یہ انٹرنیشنلائزیشن کا فہم اور اعلیٰ تعلیمی اوسط رکھنے والے لوگ ہیں۔ کشمیری جنگلات سندھ والے کاٹتے ہیں۔ المیہ یہ، 2005 کے زلزلے کی تباہی دریا کنارے بنے گھروں میں اپنی آنکھوں سے دیکھی ، پورا پورا خاندان تباہ ہوا ، پھر انہی ڈھلوانوں پر گھر زیادہ منزلوں والے بن گئے۔ انہیں عالمی اداروں نے آکر روکنا ہے کیا؟ چلاس، گلگت ، کاغان ، ناران، سوات، چتراور وادی نیلم وغجرہ کو ٹورسٹ پوائنٹ تو بنانا چاہتے ہیں لیکن جہاں ٹورسٹ اخلاقی و قانون پاسداری کو خدا حافظ کہہ کر خدشہ مول لیں وہاں صوبہ و مقامی ضلع بھی پروٹوکولز کا خیال رکھتا ہے ؟ قومی سے مقامی سطح تک انویسٹمنٹ ، ٹیکنالوجی کی موجودگی، کمیونیکیشن کہ قبل از وقت آگاہی ہو، طوفانی شدت اور اوقات کے تناظر میں لانگ ٹرم و شارٹ ٹرم بندوبست کا خیال فرض ہے۔ سماجی و سیاسی، مقامی و قومی سطح پر صحت، اکانومی اور خوراک کے حوالے سے لوگوں کواکیلا چھوڑنا جرم ہے۔ غیر قانونی بجری کرش یا دیگر فیکٹریاں اور گیسٹ ہاؤسز کو قانونی نظارہ کرانا لازمی ہے۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ کا 25جولائی تک کا سانحاتی ڈیٹا آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے گر آنکھوں پر حرص و ہوس کی پٹی نہ بندھی ہو۔ مینگورہ دریائے سوات پر غیر قانونی تعمیرات والوں نے 2005 ءکے زلزلہ میں بالاکوٹ، مظفر آباد اور گڑھی حبیب اللہ اور 2022ءمیں سندھ میں بےقابو سیلابوں نے 2 ملین گھروں کا مسمارکردیا ؟ سندھ نے 2012ءکے اریگیشن محکمہ کے بنے ہوئے اس نقشہ سے استفادہ کیا جس میں ندی و دریاؤں کی رکاوٹوں کا منظرنامہ ہے؟ پھر ہائی کورٹ سکھر بنچ کے 2022 ءکا فیصلہ کہ دریائے سندھ کے دونوں کناروں پر حفاظتی معاملات کو بہتر کریں ، اس پر کیا ہوا ؟ مانا کہ بلاول بھٹو اور وزیر اعلیٰ مراد علی 22 لاکھ گھروں کی تعمیر کا عالمی ریکارڈ بنانے کے درپے ہیں آدھے سے زائد ماضی کے سیلاب زدگان کو گھر ملنے بھی والے ہیں۔ لیکن ان کے بچے رہنے اور مزید تباہ کاری سےبچنے کا اہتمام بھی ضروری ہے۔ ویسے تو اسرائیل 90 فیصد پانی ٪ ری سائکلنگ میں لاتا ہے اور سنگاپور ، مڈل ایسٹ اور شمالی افریقہ سے’’واٹر اِنوویشن‘‘ سیکھنی چاہئے!نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایکٹ 2010 ڈسٹرکٹ ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز پر بھاری اور ضروری ذمہ داری ڈالتا ہے لیکن کہیں کچھ مینجمنٹ دکھائی نہیں دیتی بہرحال محدود وسائل کے باوجود ڈی سی راجن پور شفقت اللہ مشتاق نے جس طرح ضلعی ٹیم کو متحرک رکھا ہے یہ دیگر کیلئے قابل تقلید ہے۔ حفاظتی روڈ میپ کو اگر آج طوفانی اناٹومی کو سمجھ کر متشکل نہیں کرنا تو کب کرنا ہے؟ ہماری فکر اور تساہل کو کل ہی 2010ءاور 2022ءکو بھی طوفان نے ننگا کردیا تھا اور آج پھر ! قصور وار کون کون نہیں؟ آئیں اجتماعی عاقبت نااندیشی پر اجتماعی ماتم کے بعد کم ازکم سبق تو سیکھ لیں کتنا استعمال میں ری یوز ممکن ہے، وہ کریں، اور جتنا راستہ دے سکتے ہیں پانیوں اور عقل کو اُتنا تو دیں !

تازہ ترین