ماں ایک ایسا مقدس رشتہ ہے جو الفاظ کی قید سے آزاد، احساس کی بلند ترین سطح پر فائز ہوتا ہے۔ جب ایک بچہ اس دنیا میں آنکھ کھولتا ہے تو سب سے پہلے جو لمس اسے سکون دیتا ہے وہ ماں کی گود ہوتی ہے اور یہ گود محض ایک جگہ نہیں بلکہ وہ پہلا مدرسہ ہے جہاں بچے کی شخصیت کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔ ماں کی آغوش میں جو امن، محبت اور شفقت کی بارش ہوتی ہے وہ عمر بھر انسان کو بھگوتی رہتی ہے۔ ماں کی مسکراہٹ میں قربانی چھپی ہوتی ہے۔ ماں کی دعاؤں میں حفاظت کا ایک حصار بنا ہوتا ہے اور اس کی آنکھوں میں وہ بصیرت ہوتی ہے جو بچے کے ہر درد کو الفاظ کہے بغیر ہی سمجھ جاتی ہے۔ ملک کے معروف اور معیاری اشاعتی ادارے قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل کے چیئرمین علامہ عبدالستار عاصم اپنی کتاب ”ماں عظمتوں کی داستاں“ میں ایک جگہ یوں رقم طراز ہیں کہ ”ماں ایک ایسا لفظ ہے جو محبت، ایثار، خلوص اور شفقت کا پیکر ہے۔ یہ لفظ صرف ایک رشتہ یا تعلق ہی نہیں بلکہ ایک احساس، ایک جذبہ اور ایک مکمل کائنات کا نام ہے۔ دنیا کی ہر زبان میں اس لفظ (ماں) کا مطلب ایک ہی ہے یعنی جس نے جنم دیا، جس نے پرورش کی، جس نے محبت دی اور جس نے خود کو قربان کر کے اولاد کو سنوارا“۔ الغرض ماں صرف اور صرف ایک جسمانی رشتہ ہی نہیں بلکہ ایک روحانی کردار کا نام ہے۔ منور رانا کے الفاظ میں۔
چلتی پھرتی ہوئی آنکھوں سے اذاں دیکھی ہے
میں نے جنت تو نہیں دیکھی ہے ماں دیکھی ہے
روزنامہ جنگ کے سینئر کالم نگار عطا الحق قاسمی لکھتے ہیں کہ علامہ عبدالستار عاصم نے اپنی کتاب ”ماں عظمتوں کی داستاں“ میں ماں کے اسی بے مثال رشتے کو نہایت محبت اور عقیدت کے ساتھ اجاگر کیا ہے۔ ان کے قلم نے ماں کی عظمت کو نہ صرف محسوس کیا ہے بلکہ اسے الفاظ کی صورت میں ہمیشہ کیلئے محفوظ کر دیا ہے۔ یہ کتاب ماں کے مقام، کردار اور قربانیوں کا ایک خوبصورت مرقع ہے جو قاری کے دل پر اثر کرتا ہے اور جذبات کی دنیا کو مہکا دیتا ہے۔ علامہ عبدالستار عاصم کی تحریر سادگی اور گہرائی کا حسین امتزاج ہے۔ ان کا اندازِ بیان قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ یہ کتاب نہ صرف ایک ادبی شاہکار ہے بلکہ ایک جذباتی دستاویز بھی ہے جو ہر انسان کو اپنی ماں کی محبت اور عظمت کا ایک نیا شعور عطا کرتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ”ماں عظمتوں کی داستاں“ پڑھنے والا ہر شخص اپنی ماں کی آغوش کی مہک محسوس کرے گا اور دل سے علامہ عبدالستار عاصم کی اس خوبصورت کاوش کو سراہنے پر مجبور ہوگا“۔ دین اسلام میں ماں کا مقام نہایت بلند ہے۔ سید المرسلین حضرت محمد ﷺ نے ماں کے قدموں تلے جنت کی بشارت دی ہے یعنی جنت جیسے عظیم انعام کو ماں کی خدمت کے ساتھ مشروط کیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں والدین کے ساتھ حسن و سلوک کا بار بار حکم دیا گیا ہے۔ سورۃ لقمان، آیت 14 : ”اور ہم نے انسان کو اس کے والدین کے بارے میں نصیحت کی، اس کی ماں نے اسے کمزوری پر کمزوری کے ساتھ اٹھائے رکھا، اور دو سال میں اس کا دودھ چھڑایا“ یہاں ماں کی شفقت کو نمایاں کیا گیا ہے جس میں حمل، زچگی اور دودھ پلانے تک کی مشکلات شامل ہیں۔ حضرت علامہ عبدالستار عاصم کی کتاب ”ماں عظمتوں کی داستاں“ کے حوالے سے ہم سب کے محترم محمود شام جی فرماتے ہیں کہ علامہ عبدالستار عاصم خوش قسمت ہیں جو خواب دیکھتے ہیں اور ان کی تعبیر بھی پا لیتے ہیں۔ اس عہد میں جب لفظ بے توقیر ہو رہے ہیں۔ کروڑوں ہاتھ موبائل تھامے نظر آتے ہیں۔ کتابیں صرف اسکول جاتے بچوں کے ہاتھوں میں ہیں۔ انہیں بھی کتاب سے دور کرنے کی سازش کی جا رہی ہے۔ ان حالات میں علامہ عبدالستار عاصم یہی فلسفہ یہی معروضات یہی نظریات کتاب کے ذریعے معاشرے تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ کتاب کی اشاعت میں ان کا کردار ہمیشہ مرکزی رہا ہے۔ اب وہ کتاب کے ذریعے ماں کی عظمت کو اجاگر کر رہے ہیں۔ ماں ہمیں جنم دیتی ہے پالتی ہے پرورش کرتی ہے۔ ایک ماں ہماری مملکت ہے ہماری پاک سرزمین ہے جو ہمیں شناخت دیتی ہےاور قوموں کی صفوں میں ایک باوقار اہمیت دیتی ہے۔ علامہ عبدالستار عاصم دونوں ماؤں کی عظمت برقرار رکھنے کیلئے ہر لمحہ سرگرم رہتے ہیں“۔ حضرت علامہ عبدالستار عاصم صرف ایک اچھے پبلشر ہی نہیں ہیں بلکہ وہ ایک بہت ہی اچھے دانشور، محقق اور لکھاری بھی ہیں جنہوں نے بلا شبہ اپنی اس کتاب پر بہت ہی محنت کی ہے۔ میرے خیال میں قارئین اد ب کیلئے اس کتاب کا مطالعہ نہایت ہی ضروری بلکہ لازم ہے۔ آخر میں اسی موضوع پر زاہد فخری کے چند پنجابی اشعار حاضر خدمت ہیں، ملاحظہ فرمائیے۔
جنہاں گھراں وچ ماں نیں ہوندی
اُنہاں دے ویہڑے چھاں نیں ہوندی
دھی ،پُتر بھاویں جان وی منگن
کدی ماواں کول ناں نیں ہوندی
جے کر ماواں پہلے ہاں ناں آکھن
فیر رب ولوں وی ہاں نئیں ہوندی