• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج میرا ارادہ تھا، ابھی تک ارادہ ہے کہ میں آپ کو ایک پرانے ٹیلی وژن سیریل کا خلاصہ سنائوں اس کی پندرہ قسطوں میں یہ بحث کی گئی تھی کہ ایک ڈاکٹر کو مریض کا علاج کرنا چاہئے یا علاج کرنے سے پہلے مریض سے پوچھنا چاہئے کہ تو ہندو ہے یا مسلمان ہے، یہودی ہے یا عیسائی ہے؟ تو چور ہے، اچکا ہے؟ قاتل ہے یا رہزن ہے’ جاہل ہے یا عالم فاضل ہے؟ علاج کے دوران ڈاکٹر کو اگر پتہ چل جائے کہ وہ جس مریض کا علاج کر رہا ہے وہ مجرم ہے اور پولیس اس کی تلاش میں ہے، تو کیا ڈاکٹر فوراً پولیس کو مطلع کردے اور مریض کو پولیس کے حوالے کردے؟ سیریل تقریباً پینتیس برس پہلے کوئٹہ ٹیلی ویژن سینٹر سے ٹیلی کاسٹ ہوا تھا اور اس کے بعد پی ٹی وی کے تمام ٹیلی ویژن سینٹرز سے دکھایا گیا تھا۔ ٹیلی وژن سیریل کا نام تھا ’’بھنور‘‘۔ سیریل کا خلاصہ سنانے کا میرا ارادہ تھا۔ میرا ارادہ ہے، مگر پچاسیوں ٹیلی وژن چینلز سے بار بار ’’دھول چٹانے‘‘ کا محاورہ سن کر اس فقیر کا متھا گھوم گیا ہے، یعنی سر چکرا گیا ہے۔ میں آپ سے دھول چٹانے والے محاورہ کے بارے میں اپنی سوچ شیئر کرنا چاہتا ہوں۔
کوئی ایک شخص حب الوطنی پر اپنی اجارہ داری قائم نہیں کرسکتا۔ ایسا کرنے سے دو نتائج سامنے آتے ہیں۔ ایسا شخص اپنے علاوہ باقی ماندہ لوگوں کو اپنے سے کم محب وطن سمجھنے لگتا ہے اگر ایسے شخص کا اپنے متعلق حب الوطنی کا دعویٰ منطق اور دلائل کی حدود سے بالاتر ہوجاتا ہے تب ایسے محب وطن کو اپنے علاوہ باقی خلق خدا غدار دکھائی دیتی ہے۔ اس طرح کی ذہنی کیفیت کسی کے لئے بھی المناک المیہ سے کم نہیں ہوتی۔ ایسا شخص انجانے میں اپنے گرد حصار کھینچ لیتا ہے اور اس میں قید ہوکر بیٹھ جاتا ہے۔ حصار کے اندر قید اپنی دنیا کو انسٹی ٹیوشن محسوس کرنے لگتا ہے۔ وہ حب الوطنی کی سندیں جاری کرنے لگتا ہے۔ مثلاً اگر آپ ملک میں پھیلے ہوئے گندگی کے پہاڑوں کا ذکر کرتے ہیں۔ بند نالوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ جگہ جگہ غلاظت پر احتجاج کرتے ہیں تو ایسے محب وطن آپ پر لعنت ملامت کرنے میں دیر نہیں کرتے، ’’اپنے وطن میں کیڑے نکالتے ہو؟ بڑے بے شرم ہو۔ ڈوب مرو۔ بدبختو اپنے وطن سے محبت کرنا سیکھو‘‘۔
اگر آپ حاکم وقت کو پسند نہیں کرتے تو آپ پر غداری کا الزام لگا کر آپ کو کیفر کردار تک پہنچایا جاتا ہے۔ ایسے لوگوں کیلئے حاکم وقت ہرحال میں حاکم وقت ہوتا ہے۔ وہ ملک و ملت کی علامت ہوتا ہے۔ اور حکمراں چور اچکے اور ٹھگ نہیں ہوتے۔ حکمراں کے خلاف بغاوت کو ملک سے بغاوت سمجھا جاتا ہے۔ جرسیوں اور ٹی شرٹس پر Proud to be Pakistani لکھوا کر آپ سڑکوں، پارکوں، دکانوں، شاپنگ سینٹروں پر اودھم بازی کرتے رہیں۔ کوئی آپ کو کچھ نہیں کہے گا۔ اپنی بڑی بڑی گاڑیوں پر پرائوڈ ٹو بی پاکستانی کے اسٹیکر لگا کر ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرتے پھریں۔ اپنے گن مین لے کر غنڈہ گردی کرتے رہیں۔ کوئی آپ کو روکے گا نہ ٹوکے گا۔ میں نے دنیا بھر میں دھکے کھاتے ہوئے کہیں بھی کسی عورت یا مرد کو ایسی ٹی شرٹ یا جرسی پہنے ہوئے نہیں دیکھا ہے جس پر ’’پرائوڈ ٹو بی آسٹریلین، پرائوڈ ٹو بی امریکن، پرائوڈ ٹو بی برٹشر، پرائوڈ ٹو بی رشین، پرائوڈ ٹو بی ملیشین، پرائوڈ ٹو بی فرنچ‘‘ لکھا ہو۔ اس طرح کے رویے ذہنی پھکڑپن کی نشاندہی کرتے ہیں۔ پھکڑپن وائرس ہے۔ اگر آپ کی سرشت میں سرایت کر جائے تو اس کے بعد آپ we are the best کے مرض میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ ’’ہم عظیم ہیں۔ ہم سب سے زیادہ ذہین ہیں۔ سب سے زیادہ ہنرمند اور تعلیم یافتہ ہیں۔ سب سے زیادہ تہذیب یافتہ ہیں۔ ہم سب سے زیادہ دلیر ہیں، بہادر ہیں۔ ہم ناقابل شکست ہیں۔ ساری دنیا ہم سے ڈرتی ہے‘‘۔ یہ بڑی مہلک بیماری ہے۔ آپ کو اندر سے کھوکھلا کر دیتی ہے۔ جیسے جیسے آپ دنیا کو ترقی کرتے ہوئے، تیزی سے آگے بڑھتے اور نت نئے ایجادات سے سرخرو ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں آپ اندر سے کڑھتے ہیں۔ کڑھنے کی اذیت سے فرار پانے کے لئے آپ اور زیادہ زور زور سے نعرے لگانے لگتے ہیں we are the best۔ ہم اعلیٰ اور عظیم ہیں۔
خود فریبی کی بیماری انسان کو احمق اور اپاہج بنادیتی ہے۔ جب تک آپ اس غلط فہمی یا خوش فہمی میں مبتلا رہتے ہیں کہ آپ کو سب کچھ آتا ہے۔ آپ عالم ہیں۔ آپ فاضل ہیں۔ آپ اعلیٰ ترین انجینئر ہیں۔ آپ عظیم ترین ڈاکٹر ہیں۔ آپ عقل کل ہیں۔ تب تک آپ کچھ نہیں سیکھ سکتے۔ آپ پر علم اور آگاہی کے دروازے بند رہیں گے۔ یاد رکھیں کہ سیکھنے کا عمل کبھی ختم نہیں ہوتا۔ سیکھنے سکھانے کے یہ وہ دریا ہیں جو لاکھوں کروڑوں برسوں سے سمندروں میں گرتے رہتے ہیں۔ اس عمل میں نہ دریا کے بہائو بند ہوتے ہیں اور نہ ہی سمندر بھر جاتے ہیں۔ یہ سیکھنے سکھانے کا سلسلہ یونہی قیامت تک چلتا رہے گا۔
دھول چٹانے کا مطلب ہے ذلیل کرنا، کسی کو بے عزت کرنا۔ دھول پلیٹ میں ڈال کر چٹائی نہیں جاتی۔ زبان سے زمین کو چاٹنا پڑتا ہے۔ اگلے وقتوں میں دھول چٹانے کی سزا کو انسانیت کی توہین سمجھا جاتا تھا۔ کھیل کھیل ہوتا ہے۔ کھیل میں کبھی جیت اور کبھی پیار سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ کھیل میں اہم یہ ہوتا ہے کہ آپ نے کھیل کیسے کھیلا۔ لارڈز میں پہلا کرکٹ ٹیسٹ میچ پاکستان جیتا اور برطانیہ کو ہرا دیا۔ تب ہمیں اپنے اندرسے کھوکھلے ہونے کی گونج سنائی دی جب ہمارے پچاسیوں ٹیلی وژن چینلز کے خبریں پڑھنے والے اور پڑھنے والیوں نے پانچ ہزار مرتبہ ہمیں بتایا کہ پاکستان نے انگلستان کو دھول چٹا دی۔
دوسرا ٹیسٹ میچ ہم انگلستان سے ہار گئے، اور ہم بری طرح سے ہارے۔ کسی ایک ٹیلی وژن چینل نے یہ نہیں کہا کہ انگلستان نے پاکستان کو دھول چٹا دی۔ اپنے کھوکھلے پن کا اظہار کرتے ہوئے ہم نے اپنی اسی ٹیم کی تذلیل کی جس ٹیم کو صرف چھ روز پہلے ہم نے تعریفوں کے پل باندھتے ہوئے آسمان تک پہنچا دیا تھا۔ we are the best۔ ہمیں کوئی مائی کا لال ہرا نہیں سکتا۔ ہارنے کے بعد ہماری ٹیم تو حواس باختہ نہیں ہوئی، مگر ہم حواس باختہ ہوگئے۔ جس ٹیم کو ہم میڈیا والوں نے ایک ہفتہ پہلے دھول چٹا دی تھی، اسی ٹیم نے ایک ہفتے بعد ہم میڈیا والوں کو دھول چٹا دی۔


.
تازہ ترین