• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک انگریزی اخبار کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے جنرل (ریٹائرڈ) مرزا اسلم بیگ نے فرمایا ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات اس لئے ناکام ہوئے کہ مذاکرات کی قیادت حکومت کر رہی تھی۔ اگر حکومت کے بجائے فوج کے نامزد افراد کو مذاکرات کا موقع دیا جاتا تو موجودہ تعطل سے بچا جا سکتا تھا۔ مرزا صاحب طالبان کے معاملے میں حکومت کو غیر متعلقہ فریق قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ فوج اور طالبان اس مناقشے میں بنیادی فریق ہیں اور ان دونوں کے درمیان امن مذاکرات کامیاب ہو سکتے ہیں۔ مرزا صاحب کی رائے درست نہیں۔ دہشت گردی کے خلاف حقیقی فریق پاکستان کی ریاست ہے اور ریاست کی نمائندگی منتخب حکومت کرتی ہے۔ حکومت کا منصب پالیسی مرتب کرنا ہے اور ریاستی اداروں کا فرض ان پالیسیوں پر عمل درآمد ہے۔ یہ درست ہے کہ حکومت قومی سلامتی کے امور پر متعلقہ اداروں سے پیشہ ورانہ مشاورت کرتی ہے لیکن فیصلہ سازی پر حتمی اختیار حکومت کو حاصل ہے۔ یہ امر بھی مدنظر رہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کی ناکامی میں حکومت کی کسی مفروضہ نااہلی کو دخل نہیں۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی۔ اس لئے کہ طالبان پاکستان پر تسلط حاصل کرنا چاہتے ہیں اور مذاکرات کی آڑ میں ریاست کو کمزور کرنا طالبان کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ اپریل 2004ء میں معاہدہ شکئی سے لے کر حافظ گل بہادر ، منگل باغ اور ملا نذیر کے ساتھ مذاکرات فوج ہی نے کئے تھے۔ مذاکرات طالبان کے لئے منزل نہیں، حکمت عملی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ 1988ء سے 91ء تک فوج کے سربراہ کے طور پر جنرل بیگ افغان مجاہدین کے درمیان امن کی کوششوں میں بنیادی کردار رکھتے تھے۔ اگرچہ ربع صدی گزر چکی تاہم باور کرنا چاہئے کہ مرزا صاحب کو غیر ریاستی عناصر کے ساتھ مذاکرات کی کچھ مشکلات ضرور یاد ہوں گی۔ مرزا صاحب خالد سجنا اور ملا فضل اللہ کے گروہوں میں بظاہر اختلافات سے بڑی امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہیں لیکن انہوں نے وضاحت نہیں کی کہ پاکستانی ریاست کا اصل ہدف بندوق اٹھانے والی انتہا پسند سوچ سے پاکستانی زمین کو آزاد کرانا ہے یا عارضی طور پر کچھ گروہوں کو ماضی کی طرح خاموش کرنا مقصد ہے۔دہشت گردی کے مسئلے پر بنیادی فریق تو پاکستان کے عوام ہیں اور عوام صرف یہ جانتے ہیں کہ کراچی ایئرپورٹ پر ہمارے جوانوں کا خون بہانے والوں کے ڈانڈے ان انتہا پسندوں سے ملتے ہیں جنہوں نے تفتان میں 30 زائرین کا خون بہایا ہے۔ فتح جنگ میں دو اعلیٰ افسروں کی شہادت کو مرزا صاحب نے طالبان کا ردعمل قرار دیا ہے۔ ردعمل کی یہ بوسیدہ دلیل طالبان کی عذر خواہی کے سوا کچھ نہیں۔ پاکستان کی ریاست اور عوام نے ان انتہا پسندوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا ۔ پاکستان کا قصور صرف یہ ہے کہ ہماری ریاست انتقام اور عصبیت کے پسماندہ رویوں کے بجائے پیداوار، علم اور پرامن بقائے باہمی جیسے جدید اصولوں پر استوار ہوئی ہے۔ پاکستان کے عوام نے ایک طویل جدوجہد کے بعد اپنے لئے جواب دہ حکومت اور باوقار زندگی کے جو حقوق حاصل کئے ہیں وہ انہیں کسی نام نہاد قبائلی جنگجو کی دہلیز پر بھینٹ کرنے پر تیار نہیں۔ پاکستان کے عوام کسی پسماندہ سوچ کا خراج دینے پر آمادہ نہیں ہیں۔ اپنے قومی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے خارجہ پالیسی تشکیل دینا پاکستان کی ریاست کا بنیادی استحقاق ہے۔ خارجہ پالیسی کو کسی عبقری ذہن کی اڑان گھاٹیوں کے تابع نہیں کیا جا سکتا۔ 25 برس قبل عراق کے صدام حسین نے کویت کے خلاف جارحیت کی تو ساری دنیا میں صدام حسین کے حق میں صرف دو آوازیں اٹھیں، ایک فلسطینی رہنما یاسر عرفات تھے اور دوسرے جنرل اسلم بیگ، جو اپنے ہی ملک کے وزیراعظم نواز شریف کو خفیف کرنا چاہتے تھے۔ اب تو بہت مدت گزر گئی۔ کیا مناسب ہو کہ جنرل صاحب پہلی خلیجی جنگ میں اپنی بصیرت کے حق میں ایک مبسوط رسالہ رقم فرمائیں، ایک دنیا کا بھلا ہو گا۔ یوں بھی جنرل صاحب دانشور جنرل ہونے کی شہرت رکھتے ہیں۔ انہوں نے فرینڈز کے نام سے ایک تھنک ٹینک بھی بنایا تھا جس کی گونج مہران گیٹ اسکینڈل کے لین دین میں بھی سنائی دی تھی۔ یہ الگ قصہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف نے جنوری 2008ء میں انہیں جعلی دانشور قرار دیا تھا۔ بات یہ ہے کہ دانش ، مہم جوئی اور طالع آزمائی میں کوسوں کا فرق ہے۔ دانش کی یہی شہرت جنرل یعقوب علی خان اور جنرل جہانگیر کرامت کی بھی تھی۔ دونوں ماشااللہ بقید حیات ہیں۔ بہت سے اتار چڑھائو آئے مگر کسی کو ان دونوں پر انگلی اٹھانے کا موقع نہیں ملا۔ دانش انسانی ذہانت کا بہت اعلیٰ درجہ ہے اور اس کی کلید اپنی تحدیدات کو جاننا ہے۔
جنرل اسلم بیگ باغ و بہار شخصیت ہیں۔ انہوں نے ایک انٹرویو میں اعتراف کیا کہ بھٹو صاحب کی شہادت کے بعد سندھی قوم پرستی کا زور توڑنے کے لیے جنرل ضیاالحق کے حکم پر ایم کیو ایم تشکیل دی گئی تھی۔ 2009ء میں مرزا صاحب نے انکشاف کیا کہ پیپلز پارٹی کی ممکنہ انتخابی کامیابی کو روکنے کے لئے آئی جے آئی تشکیل دی گئی تھی۔ 1990ء میں آئی جے آئی کی کامیابی کو یقینی بنانے کے لئے رقومات تقسیم کی گئیں جن کے بارے میں سپریم کورٹ کا فیصلہ ہماری تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی سوانح عمری میں لکھا کہ جنرل اسلم بیگ انہیں افغان پالیسی، کشمیر پالیسی اور ایٹمی پروگرام کے بارے میں بے اختیار رکھنا چاہتے تھے۔ اسی زمانے میں بے نظیر بھٹو کے لئے ’سکیورٹی رسک‘ کی اصطلاح ایجاد کی گئی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد جنرل بیگ نے تسلیم کیا کہ بے نظیر بھٹو قومی سلامتی کے لئے خطرہ نہیں تھیں بلکہ وطن پرست رہنما تھیں۔سلیم صافی کو انٹرویو دیتے ہوئے بیگ صاحب نے دعویٰ کیا تھا کہ پرویز مشرف نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے مسلم لیگ قاف اور ایم ایم اے بنوائی تھیں۔ حیرت ہے کہ 70ء کی دہائی سے لے کر اب تک جو سیاسی قوت جنرل اسلم بیگ اور ان کے ہم سفروں نے کھڑی کی اس میں ایک ہی جیسے چہرے کیوں شامل ہوتے ہیں اور ان میں واحد قدر مشترک عوامی تائید سے محروم ہونا کیوں ہوتا ہے۔ جنرل صاحب نے وردی میں رہتے ہوئے جو سیاسی نقشے مرتب کئے وہ سب کامیابی سے ہمکنار ہوئے مگر جنرل صاحب نے عوامی قیادت پارٹی کے نام سے اپنی سیاسی جماعت بنائی تو اسے انتخابی پالے میں اترنا بھی نصیب نہ ہوا۔ جنرل اسلم بیگ عدلیہ کی آزادی اور احترام کی تاریخ میں بھی ایک مقام رکھتے ہیں۔ فروری 1993ء میں انہوں نے اعتراف کیا کہ انہوں نے 1988ء میں سپریم کورٹ کو پیغام بھیجا تھا کہ حاجی سیف اللہ کیس میں جونیجو صاحب کی حکومت بحال نہ کی جائے۔ عدلیہ میں مداخلت کے اس کھلے اعتراف کے بعد انہیں توہین عدالت کے الزام میں سپریم کورٹ میں طلب کیا گیا۔ 24فروری 1993ء کو کمرہ عدالت میں جو کچھ ہوا وہ ایسا تابناک نہیں کہ اسے دہرایا جائے۔ جنرل ضیاالحق کی وفات کے بعد پاکستان میں جمہوریت کے نام پر عقب نشین حکومت اور نادیدہ ریاست کا جو ناٹک رچایا گیا جنرل اسلم بیگ اس تمثیل کے مصنف تھے۔ ان کی ریٹائرمنٹ کا اعلان بھی قبل از وقت کرنا پڑا تھا تاکہ انہیں کسی ممکنہ مہم جوئی سے باز رکھا جا سکے۔ مہم جوئی کی خواہش جنرل بیگ میں ختم نہیں ہوئی۔ جولائی 2011ء میں قاضی حسین احمد کے گھر پر ایک نشست میں انہوں نے جو کچھ فرمایا تھا اسے عرفان صدیقی ضبط تحریر میں لا چکے ہیں۔ جنرل اسلم بیگ کی بزرگی اور احترام سے انکار مقصد نہیں لیکن کیا ہی مناسب ہو اگر وہ یہ سمجھ لیں کہ انہوں نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں خود کاشتہ جمہوریت کے جو صدری نسخے ایجاد کئے تھے ، وہ ناکام ہو چکے۔ جنرل صاحب ہماری تاریخ میں غیر جمہوری مداخلت کی ثقافت کے نمائندہ رہے ہیں، یہ ثقافت پٹ چکی۔ مناسب ہو گا کہ اب جمہوری حکومتوں کو اپنا کام کرنے دیا جائے۔ اس میں پاکستان کا استحکام ہے اور اسی میں پاکستان کی فوج کا احترام۔
تازہ ترین