ہمارے معاشرے میں رواداری،باہمی احترام، شائستگی اور خوش اسلوبی سے مکالمہ کرنے کا رجحان دن بدن دم توڑ رہا ہے۔ یہاں پر اختلاف رائے کو ذاتی مخالفت اور مکالمہ کو مجادلہ بنا دیا گیا ہے۔لوگ اختلاف کرنے کاسلیقہ ہی بھول چکے ہیں۔ہم معاشرتی اقدار کے زوال کے ایک ایسے مقام پر ان کھڑے ہوئے ہیں جہاں نہ تو اصلاح کی صورتحال دکھائی دیتی ہے اور نہ ہی امید کا کوئی راستہ نظر آتا ہے۔ معاشرتی اقدار میں یہ توازن ان شخصیات کی بدولت قائم ہوا کرتا تھا جو سب کیلئے قابل قبول ہوا کرتی تھیںاور جن کے فیصلوں پر اپنے پرائے سب سر تسلیم ہم کرتے تھے۔نوابزادہ نصر اللہ خان،حامد ناصر چٹھہ،چوہدری پرویز الٰہی چوہدری شجاعت حسین اور میاں محمد اظہر اسی قبیل کے لوگ ہیں جنہوں نے معاشرتی توازن برقرار رکھنے اور شائستگی کے ساتھ اختلاف کرنے کی روایت برقرار رکھی۔جب مجھے میاں اظہر کی وفات کی خبر ملی تو بے اختیار میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ آج شائستگی اور وقار کا ایک باب بند ہو گیا۔ میاں اظہر ایک شائستہ اور بردبار انسان تھے۔آپ پاکستانی سیاست کا ایک ایسا نام تھے جو شرافت، وقار اور اصول پسندی کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ وہ ان گنے چنے سیاست دانوں میں سے تھے جنہوں نے اپنے عمل، گفتار اور طرزِ سیاست سے ثابت کیا کہ سیاست شرافت کے ساتھ بھی کی جا سکتی ہے۔ وہ ان شخصیات میں سے ایک تھے جن کے دامن پر کرپشن کا کوئی داغ نہ تھا وہ اجلے دامن کے ساتھ اس معاشرے کے حسن میں اضافہ کرتے رہے اور پھر اجلے کفن میں لپٹ کر اپنے رب کے حضور حاضر ہو گئے۔میاں محمد اظہر کے شریف فیملی کیساتھ دیرینہ تعلقات تھے اور میاں نواز شریف کے ساتھ انکی گاڑھی چھنتی تھی۔سینئر صحافی مجیب الرحمن شامی لکھتے ہیں کہ میاں اظہر کے والد میاں فضل محمد اسٹیل کے کاروبار سے منسلک تھے جب بھٹو حکومت نے شریف فیملی کے صنعتی اثاثے اپنی تحویل میں لے لیے تو میاں محمد شریف اور ان کا سارا خاندان تہی دامن ہوگیا۔اس مشکل گھڑی میں میاں فضل محمد نے میاں شریف کاہاتھ تھاما۔انہوں نے اپنے کارخانوں کیلئےکچھ مشینری باہر سے منگوا رکھی تھی، انہوں نے وہ میاں محمد شریف کے حوالے کر دی جس سے انہوں نے دوبارہ کاروبار شروع کیا۔میاں محمد شریف نے میاں اظہر کے والد کا قرض حسنہ تو ادا کر دیا لیکن ان کے درمیان تعلق کی ایک ایسی بنیاد پڑی جو بعد میں تناور درخت بن گئی۔1979ءمیں جب جنرل ضیاء الحق نے بلدیاتی نظام متعارف کرایا، تو میاں اظہر اس نظام کا حصہ بنے۔ 1987ءمیں وہ لاہور کے میئر منتخب ہوئے اور 1991ءتک اس عہدے پر خدمات انجام دیں۔ اس زمانے میں انہوں نے لاہور کا اصل چہرہ نکھارنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔تجاوزات کے خلاف مہم شروع کی تو کسی کی سفارش خاطر میں نہ لائے۔میاں نواز شریف کے ماموں کی ایک دکان بھی تجاوزات کی زد میں آئی تو اسے بھی معافی نہ ملی۔ان کا یہ دور لاہور کی ترقی اور انتظامی ڈھانچے کو مضبوط کرنے کے حوالے سے اہم سمجھا جاتا ہے۔ میاں اظہر کے گورنر بننے کا واقعہ بھی بڑا دلچسپ ہے۔بقول شامی صاحب، جب میاں فضل محمد بیمار ہوئے تو میاں محمد شریف ان کی مزاج پرسی کیلئے انکے ہاں تشریف لے گئے انہی دنوں پیپلز پارٹی کی حکومت ختم ہو چکی تھی اور ٹکا خان کی جگہ گورنر کی تلاش جاری تھی تب میاں محمد شریف نے بیمار پرسی کے تحفہ پر میاں اظہر کو گورنر پنجاب نامزد کرنے کی سفارش کی۔یہ کسی حد تک اس احسان کا بدلہ تھا جو میاں اظہر کے والد نے میاں نواز شریف کے والد پر کیا تھا۔ 1990ءسے 1993ءتک وہ پنجاب کے گورنر کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے۔1988ءکے عام انتخابات کے بعد نواز شریف کے خالی کردہ حلقہ این اے-95لاہور سے اور 1997ءکے عام انتخابات میں شاہدرہ کی نشست سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے ۔نواز شریف کے وزارت عظمی کے دور میں ہی ان کے اختلافات بڑھ گئے انہوں نے جماعت کے اندر ہم خیال گروپ گروپ ترتیب دیا جس میں خورشید محمود قصوری ،غلام سرور چیمہ اور دیگر شامل تھے۔ نواز شریف حکومت کے اختتام پر 2002ء میں قاف لیگ کے صدر بنے لیکن بدقسمتی سے وہ خود الیکشن میں کامیابی حاصل نہ کر سکے۔قاف لیگ چوہدری برادران کے حوالے کر دی گئی جس کے بعد وہ بتدریج سیاسی منظر سے غائب ہوتے چلے گئے۔ 2002ءاور 2008ءکے انتخابات میں وہ کسی نشست پر کامیاب نہ ہو سکے۔2011ءمیں وہ تحریک انصاف کے ہم سفر بنے اور پھر آخر تک اسی کشتی کے سوار رہے۔ انکے صاحبزادے حماد اظہر عمران خان کی حکومت کا ایک مثبت چہرہ تھے بعض حلقے انہیں وزیر اعلیٰ دیکھنا چاہتے تھے لیکن پنجاب کی قسمت میں عثمان بزدار لکھا تھا تو حماد اظہر جیسا باصلاحیت نوجوان یہاں پر اکاموڈیٹ نہ ہو سکا۔ میاں اظہر کی وفات کو پاکستانی سیاست میں شرافت متانت اور سنجیدگی کے ایک باب کے خاتمے سے تعبیر کیا گیا انہوں نے اپنی پوری زندگی اصولوں پر مبنی سیاست کی۔ ہمیشہ اپنے پرانے دوستوں کے ہمراہ رہے۔ گورنر کے منصب پر فائز ہونے کے باوجود ہمیشہ اپنے ذاتی گھر میں قیام کیا۔ آبائی علاقے میں اپنا وقت گزارتے رہے ہمیشہ کارکنوں کے حقوق کیلئے آواز بلند کی۔ گورنر پنجاب کے طور پر انہوں نے گورنر ہاؤس کے دروازے عوام کیلئے کھول دیے۔ شیخوپورہ کے ایک علاقے میں جرائم پیشہ عناصر کیخلاف جب کارروائی کرنے کی نوبت آئی تو انہوں نے بطور گورنر اس آپریشن کی نگرانی کی اور اس پورے علاقے کو جرائم پیشہ لوگوں سے آزاد کروایا۔ وہ سر تاپا پاکستانی تھے ان کی وفات سے پاکستان ایک محب وطن سیاستدان سے محروم ہو گیا۔