پاکستان میں حالیہ مون سون بارشوں کی وجہ سے حادثات کا سلسلہ جاری ہے، سوشل میڈیا پر ایسی بے شمار وائرل ویڈیوز موجود ہیں کہ بدقسمت لوگ اپنی زندگی کے آخری لمحات میںبے بسی کے عالم میں مدد کے منتظر تھے لیکن انکی جان بچانے کی بجائے ویڈیو بنانے کو ترجیح دی گئی۔ بلاشبہ حالیہ برسوں میں حادثات میں اضافہ ایک تشویشناک امر ہے ، ہر سال لوگ ناگہانی اموات کا شکار ہوتے ہیں جبکہ متعدد زخمی ہوکر زندگی بھر کیلئے معذور ہوجاتے ہیں، لیکن اس صورتحال کو مزید گھمبیر کرنے میں عوام کابے حس رویہ ہے کہ حادثات کے وقت مصیبت زدہ متاثرین کی مدد کرنے کے بجائے انکے بے بسی کے لمحات کی ویڈیوز بنائی جاتی ہیں اور انہیں فیس بک، ٹک ٹاک، انسٹاگرام یا واٹس ایپ گروپس میں وائرل کر دیاجاتا ہے۔ مجھے گزشتہ سال اپنے اوپر بیتنے والا واقعہ یاد آگیا جب میں کراچی میں ایک ٹریفک حادثے کا شکار ہوا تھا، اس موقع پر بھی راہگیروں اور دیگر مسافروں کی دلچسپی کا مرکز ہمیں ہسپتال پہنچانا نہیں بلکہ اپنے موبائل فون سے ویڈیو بنانا اور سیلفیاں لینا تھا، بدقسمتی سےہمارے سماج میں پنپتا یہ رجحان غیر انسانی ہے، ظالمانہ ہے، انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے اور ہمارےمعاشرتی زوال کی عکاسی کرتا ہے۔میں ایسے کئی واقعات کاحوالہ دے سکتا ہوں جہاں بروقت طبی امداد نہ ملنے کے باعث حادثات کےشکار زخمی سسک سسک کر جان کی بازی ہار گئے جبکہ موقع پر موجوددرجنوں افراد نے مدد کرنے کی بجائے اپنے موبائل کیمروں سے ویڈیوز بنائیں، لوگوں کے اس سوشل میڈیا کارنامے کو بہت زیادہ ویوز، لائکس اور کمینٹس تو مل گئے لیکن انکےاس اذیت ناک فعل نے لواحقین کو مزید ذہنی صدمے سے دوچار کردیا۔دنیا بھر میں ایمبولنس کو راستہ دیا جاتا ہے، بنگلہ دیش جیسے ملک میں مظاہرین نے ایمبولنس کی آمدورفت یقینی بنائی لیکن ہمارے ملک میں تماش بینوں کی جائے حادثہ پر ہجوم کی صورت میں موجودگی سے ایمبولنس اور ریسکیو ٹیموں کا راستہ بند ہوجاتا ہے جو ایک اورغیرانسانی فعل ہے، ویڈیو وائرل کرنے سے متاثرین اور اہل خانہ کی پرائیویسی کی خلاف ورزی ہوتی ہے جبکہ تکلیف دہ لمحات کو ہمارے سماج کے بے حس، خودغرض اور کم ظرف عناصر اپنے وقتی فائدے کیلئے سوشل میڈیا پر کیش کرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس حوالے سے یہ دو بڑے اہم سوال اُٹھتے ہیں کہ حادثات تو دنیا کے کم و بیش ہر ملک کے سماج کا حصہ ہیں تو دوسرے ممالک کے حادثات کی ویڈیوزوسیع پیمانے پر وائرل کیوں نہیں ہوتیں جبکہ پاکستان میں حادثات کا شکار ہونے والوں کی عملی مدد کیلئے کوئی شہری آگےکیوں نہیں بڑھتا؟ عالمی ممالک نے حادثات کے شکار لوگوں کی مدد کی ترغیب دینے کیلئے ایسے انسان دوست قانون نافذ کیے ہوئے ہیں جنکے مطابق عوام نہ صرف متاثرین کی بلا خوف و خطر فوری مدد کرنے کے پابند ہیں بلکہ ایسے نازک موقع پر سوشل میڈیا کیلئے ویڈیو بنانا قابلِ سزا اقدام ہے، کئی ممالک میں اس قانون کے تحت مدد کرنے والے شہری کو انعام یا سرکاری تعریفی سند بھی دی جاتی ہے۔امریکہ میں گُڈ ساماریٹان لاء کے تحت اگر کوئی عام شہری کسی حادثے یا ہنگامی صورتحال بشمول آتشزدگی، زلزلہ، سیلاب یاپانی میں ڈوب رہا ہو تودیگر شہری بلا خوف مدد کر سکتے ہیں، حادثے کے شکار فرد کی مدد کرنے والے کو قانونی کارروائی سے مکمل استثنیٰ حاصل ہوتا ہے۔برطانیہ میں بھی اسی طرز کا قانون نافذ ہے اورشہریوں کو ایمبولینس سروسز کے ساتھ مل کر حادثات میں فوری مدد کیلئے سرکاری ترغیب دی جاتی ہے۔جرمنی اور فرانس سمیت یورپی ممالک میں بسنے والے ہر شہری پر قانونی طور پر لازم ہے کہ وہ حادثے میں زخمی کی مدد کرےبصورت دیگر جرمانہ یا قید کی سزا ہو سکتی ہے۔متحدہ عرب امارات کے قوانین کے تحت زخمی کو مدد فراہم نہ کرنے والے یا حادثے کی ویڈیو بنانے والے شہری پر بھاری جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے۔ہمارے پڑوس میں بھارت میں سپریم کورٹ کے فیصلے 2016ء میں گُڈ ساماریٹان لاء کا نفاذ ہوا جسکے تحت زخمی کو اسپتال پہنچانے والے کو پولیس و تفتیشی ادارے طلب نہیں کرسکتے،مدد کرنے والے کواپنی شناخت ظاہر کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا،حکومت نےحادثات کے شکار متاثرہ افراد کی جان بچانے والوں کیلئے نقد انعامات اور تحائف دینے کا اعلان بھی کر رکھا ہےتاکہ اگر حکومتی ادارے جائے حادثہ پر بروقت نہ پہنچ سکیں تو موقع پر موجود لوگ اپنا اخلاقی فریضہ بلا خوف وخطر سرانجام دیں۔بدقسمتی سےپاکستان میں فی الحال ایسا کوئی قانون موجود نہیں جو عوام کو حادثات کے متاثرین کی مدد کیلئے قانونی تحفظ فراہم کرے بلکہ حادثے کے شکارزخمی کو پرائیویٹ ہسپتال والے قبول کرنے سے انکار کر دیتے ہیں جبکہ سرکاری ہسپتال پولیس کیس کا جواز بناکر بروقت طبی امداد پہنچانے سے معذوری کا اظہار کرتے ہیں، زخمی کو ہسپتال لیکر جانے والے کو مزید تفتیش کے نام پرتنگ کیا جاتا ہے اورانسانیت کے ناطے مدد کرنے والا مزید قانونی پیچیدگیوں میں پھنستا چلا جاتا ہے ۔ اسی خوف کی وجہ سے کئی بار لوگ زخمی کو اسپتال لے جانے سے کتراتے ہیں کیونکہ انہیں پولیس تفتیش اور عدالتوں میں چکر لگنے کا ڈر ہوتا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ اگر پاکستان میں بھی یہ قانون بنایا جائے کہ زخمی کی مدد کرنے والے کو پولیس یا عدالتی کارروائی سے استثنیٰ ہوگا تو متاثرین کی فوری مدد ممکن ہو گی اور کئی جانیں بچائی جا سکیں گی، حکومت عوام کا حوصلہ بڑھانے کیلئےسرکاری اعزازت یا تعریفی سرٹیفکیٹ کا اعلان کرسکتی ہے، میری نظر میں حادثے کی ویڈیو بنانا سائبر کرائم ہے اور سوشل میڈیا پر وائرل کرنے والوں کو قانون کی سخت گرفت میں لانے سے اس غیر انسانی روش پر قابو پایاجا سکتا ہے۔ اگرآج ہم نے مہذب دنیا کے شانہ بشانہ بدلتے وقت کے تقاضوں سے اپنے آپ کو ہم آہنگ نہ کیاتو نہ جانے اورکتنی مزید معصوم جانیں سماجی بے حسی کی نذر ہو جائیں گی۔میری انسانیت کے ناطے تمام پاکستانی ہموطنوں سے اپیل ہے کہ خدارا حادثے کے وقت مدد کیلئے ہاتھ آگے بڑھایا جائے، نہ کہ موبائل کیمرہ آن کیا جائے۔