پاکستان میں ڈالر کی نقد قلت کی ایک بڑی وجہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان (SBP) کی جانب سے غیر قانونی زرِمبادلہ کے کاروبار کے خلاف سخت اقدامات ہیں۔ خاص طور پر اُن’’آف دی بُکس‘‘ لین دین پر کریک ڈاؤن کیا گیا جن میں بعض ایکسچینج کمپنیاں بغیر دستاویزی ثبوت کے، من مانی قیمتوں پر ڈالر فروخت کر رہی تھیں۔ کچھ احباب جانتے ہوںگے کہ پاکستان کی ایک صفِ اول کی ایکسچینج کمپنی،’’ڈالر ایسٹ‘‘کے اسپانسرز میرے کاروباری ساتھی رہے ہیں اور میں خود بھی اس کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کا رکن رہا ہوں۔ اس بنا پر میں ذاتی مشاہدے سے جانتا ہوں کہ اسٹیٹ بینک نے اب کتنی سخت نگرانی کا نظام نافذ کر رکھا ہے۔ ہر برانچ میں کیمرے اس زاویے سے نصب ہیں کہ ہر لین دین خصوصاً نقد ڈالر کی نقل و حرکت کا لمحہ بہ لمحہ ریکارڈ محفوظ رہے۔ ہر برانچ کیلئے کم از کم چار ماہ کی CCTV فوٹیج رکھنا لازم ہے، اور اسٹیٹ بینک کے انسپکٹرز کی پہلی توجہ اسی فوٹیج پر ہوتی ہے۔اس غیر قانونی کاروبار کے سدِباب کیلئے SBP نے تمام ایکسچینج کمپنیوں کو پابند کیا ہے کہ وہ روزانہ اپنی ڈالر کی مخصوص مقدار بینکوں میں جمع کروائیں۔ اس فیصلے سے اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی دستیابی میں کمی واقع ہوئی۔
ڈالر کی خرید و فروخت کے موجودہ اصول
مروجہ ضوابط کے تحت اب کسی بھی شخص کو ڈالر کی خریداری کیلئے مکمل دستاویزات فراہم کرنا ہوتی ہیں: پاسپورٹ۔ شناختی کارڈ۔ ویزا اور کنفرم ایئر ٹکٹ۔
یہ سب دکھانے کے بعد کرنسی ایکسچینج یا بینک آپ کی تصویر لے گا اور بائیومیٹرک تصدیق کے بعد پانچ ہزار امریکی ڈالر یا اس کے مساوی دیگر کرنسی جاری کرے گا۔اگر آپ اپنی نقد رقم ڈالر اکاؤنٹ میں جمع کروانا چاہتے ہیں، تو ایکسچینج کمپنی کے نام اپنے اکاؤنٹ کا چیک دینا ہوگا۔ بائیومیٹرک تصدیق کے بعد آپ کو دس ہزار امریکی ڈالر تک جاری کیے جا سکتے ہیں، جسے آپ اپنے اکاؤنٹ میں جمع کرا کے اس کی ڈیپازٹ سلِپ واپس کرنسی کمپنی کو فراہم کریں گے۔ جب تک یہ تمام مراحل مکمل نہ ہوں، ٹرانزیکشن مکمل نہیں سمجھی جائے گی، اور اگر کسی بھی مرحلے پر ضابطے کی خلاف ورزی ہو، تو لین دین غیر قانونی قرار پائے گا۔اسی تسلسل میں یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ ایک فرد سالانہ ایک لاکھ امریکی ڈالر سے زائد رقم بیرون ملک منتقل نہیں کر سکتا، اور یہ ترسیل بھی صرف قانونی ضوابط اور مخصوص مقاصد کے تحت ہی ممکن ہے۔
انٹربینک اور اوپن مارکیٹ ریٹ میں فرق ختم کرنے کی کوشش
اسٹیٹ بینک اس وقت ایک اور اہم ہدف پر کام کر رہا ہے:انٹربینک اور اوپن مارکیٹ ریٹس کے درمیان فرق کو کم کرنا۔ IMF کی شرط ہے کہ یہ فرق 1.25 فیصد سے زائد نہ ہو۔ چنانچہ SBP نے تمام ایکسچینج کمپنیوں پر سخت نگرانی شروع کر دی ہے اور خلاف ورزی کرنیوالوں کے خلاف کارروائی جاری ہے۔ اب ہر رجسٹرڈ برانچ میں’’فاریکس ایسوسی ایشن آف پاکستان‘‘کے ریٹ براہِ راست اسکرین پر نشر کیے جاتے ہیں، اور کوئی کمپنی اس سے ہٹ کر ریٹ نہیں دے سکتی۔
کرنسی کی قدر اور کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس — ایک پیچیدہ رشتہ
یہ بات سمجھنی ضروری ہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس اور کرنسی کی قدر کے درمیان تعلق بظاہر سیدھا نظر آتا ہے، مگر درحقیقت یہ نہایت پیچیدہ ہے۔ اس پر اثر انداز ہونیوالے عوامل میں مالیاتی پالیسی، مہنگائی اور عالمی اقتصادی حالات شامل ہیں۔ لہٰذا کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس بذاتِ خود مستحکم کرنسی کی ضمانت نہیں دیتا۔
خلاصہ: اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قلت کی وجوہات
(1) اسٹیٹ بینک کے ذخائر میں اضافہ:روپے کو مستحکم رکھنے اور زرِ مبادلہ کے ذخائر بڑھانے کیلئے SBP مسلسل مارکیٹ سے ڈالر خرید رہا ہے۔(2) ڈالر کی لازمی سرنڈرنگ:تمام بینکوں اور ایکسچینج کمپنیوں کو روزانہ صبح اپنے کوٹے کے مطابق ڈالر بینک میں جمع کروانے کی ہدایت ہے، جس کے باعث اوپن مارکیٹ سے ڈالر مہنگے داموں خریدے جا رہے ہیں،انٹربینک ریٹ سے 2-3 روپے اضافے کیساتھ۔(3) ڈالرائزیشن میں اضافہ :SBPکی پالیسیوں کے باعث ڈالر کی طلب میں اضافہ ہوا، اور عوام نے گھبراہٹ میں ڈالر اکاؤنٹس کھلوانے شروع کر دیے، جس سے اوپن مارکیٹ پر مزید دباؤ بڑھا۔ان پالیسیوں کے نتیجے میں اسٹیٹ بینک کے ذخائر14.5ارب ڈالر اور کمرشل بینکوں کے پاس4.5ارب ڈالر تک جا پہنچے ہیں، یوں ملک کے مجموعی ذخائر19.9ارب ڈالر ہو چکے ہیں۔ایک معروف ایکسچینج کمپنی (ڈالر ایسٹ نہیں) کے CEO کے مطابق، اسلام آباد میں ہونے والے حالیہ اعلیٰ سطحی اجلاس میں اشارہ دیا گیا ہے کہ اسٹیٹ بینک نے اپنی ڈالر خریداری مکمل کر لی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آئندہ دنوں میں اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی فراہمی معمول پر آ سکتی ہے۔ اس پیغام سے یہ امید بھی بندھی ہے کہ وہ بینک جو اب تک ڈالر روک کر بیٹھے تھے، انہیں مارکیٹ میں واپس لانے پر مجبور کیا جائے گا۔