میری سیاسی معلومات بہت کم ہیں اور جتنی بھی ہیں، ان کی ’’تاریخ ولادت‘‘ تو سرے سے یاد نہیں، تاہم اس وقت ان کی ضرورت بھی نہیں کہ فی الحال میں شہباز شریف کے بارے میں اظہارِ خیال کر رہا ہوں۔ چنانچہ جب شریف خاندان واپس پاکستان آیا تو نہیں یاد کہ کن مراحل سے گزرا۔ بس اتنا یاد ہے کہ شہباز شریف نے وزیراعلیٰ پنجاب کا منصب سنبھالا اور انکے ساتھ دو طرفہ محبت میں کوئی کمی نہ آئی، انہوں نے وزیراعلیٰ پنجاب کے طور پر دن رات محنت سے اتنا نام کمایا کہ انکے کام کی رفتار دیکھ کر ’’شہباز شریف اسپیڈ‘‘ کی اصطلاح وجود میں آئی۔ اس دوران مجھے شہباز شریف کو زیادہ قریب سے دیکھنے کا موقع ملا اور میں نے محسوس کیا کہ وہ بہت سادہ زندگی گزارتے ہیں۔ جاتی عمرہ کے ’’محل‘‘ میں ان کا بیڈ روم ایک چارپائی اور ایک ہیٹر پر مشتمل تھا، ان کی کفایت شعاری کا یہ عالم کہ لندن میں قیام کے دوران وہ اپنی شاپنگ کیلئے وہ دن منتخب کرتے تھے جب ففٹی پرسینٹ سیل کا آغاز ہوتا تھا مگر رفاعی اداروں کیلئے ان کے ہاتھ ہمہ وقت کھلے رہتے تھے۔ ایک بہت عجیب بات یہ کہ بیرونی دوروں پر جن صحافیوں کو اپنے ساتھ لے کر جاتے انکے تمام اخراجات اپنی جیب سے ادا کرتے تھے۔ ترکی کے دورے میں ، میں ان کے ساتھ تھا۔ وزیراعظم طیب اردگان کی طرف سے دیے گئے عشائیے میں انہوں نے بطورِ خاص میرا تعارف کرایا اور ساتھ ہی یہ فرمائش بھی کی کہ میں انہیں اپنی کوئی غزل سنائوں۔ مجھے بہت ہنسی آئی کہ میری اردو غزل کی انہیں کیا سمجھ آئے گی تاہم انکے اصرار پر میں نے اپنی غزل سنائی جس کا ترجمہ شہباز صاحب ساتھ ساتھ کرتے رہے۔ شہباز شریف نے اپنی وزارتِ اعلیٰ کے دوران میری ایک غزل اتنے تواتر سے سنائی کہ مشاعروں میں مجھ سے فرمائش کی جانے لگی کہ شہباز شریف والی غزل سنائیں۔اس دوران الحمراء آرٹس کونسل کے چیئرمین کے طور پر میری تقرری ہوئی۔ تاہم یہ ایک اعزازی عہدہ تھا اور مجھے خوشی ہے کہ جتنا عرصہ میں اس عہدے پر رہا میں نے ایسے بہت سے اقدامات کیے جو لوگوں کو آج بھی یاد ہیں۔ میں نے عالمی کانفرنس کے سلسلے کا آغاز کیا اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہا جب تک میں چیئرمین رہا۔ الحمرا کی شاندار بلڈنگ کے سامنے کئی کنال کا ایک پلاٹ تھا، جو کسی سرکاری ادارے نے اپنی تحویل میں لیا ہوا تھا اور بالکل بے کار پڑاتھا۔ میں نے شہباز صاحب کی مدد سے یہ پلاٹ الحمرا کے نام کرایا جو مال روڈ کو فیس کرتا تھا اس کے علاوہ بے شمار کام کیے، جن کی تفصیل کیلئے کئی کالم اور لکھنا پڑیں گے۔ اس کے علاوہ میں اپنے موضوع سے بھی ہٹ جائوں گا۔ سو اپنے آپ کو شہباز شریف کے ذکر تک محدود رکھوں گا۔ ایک دلچسپ واقعہ یاد آ رہا ہے ایک بین الاقوامی کانفرنس کے موقع پر وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے غیرملکی مندوبین کے اعزاز میں ناشتہ دیا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ مجھے شہباز صاحب کی کفایت شعاری پر ہنسی آئی۔ ناشتے میں ہاف فرائی انڈے، ڈبل روٹی اور چائے کا ایک کپ شامل تھا۔ ناشتے کے بعد باہر جاتے ہوئے شہباز صاحب نے مجھ سے پوچھا ’’اب آپ کدھر جا رہے ہیں؟‘‘ میں نے کہا ’’ناشتہ کرنے‘‘ اور اسکے بعد میں واقعی ناشتہ کرنے ایک ریستوران میں چلا گیا۔میری چیئرمین شپ کے دوران پاکستان کے بہت بڑے بڑے ادیب الحمراء کی تقریبات میں شرکت کرنے لگے۔ عبداللہ حسین جو کبھی گھر سے باہر قدم نہیں رکھتے تھے۔ میں انہیں بھی کھینچ لایا۔ کیپٹن (ر) عطا محمد خان الحمرا کے ای ڈی مقرر ہوئے تو میرا کام آسان ہو گیا کہ وہ خود بھی شاعر تھے۔ اسی دوران میں نے الحمرا کے 47 کے قریب ملازمین کو کنفرم کیا اور میں نے جتنے بھی کام کیے (صرف ایک فیصد کا ذکر کیا ہے) وہ شہباز شریف کی ادب دوستی اور محبت کے بغیر ممکن نہ تھے۔اس دوران دو ایک مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ جب کبھی انکے گھر میں انکی پسندیدہ ڈش بنتی تو شہباز صاحب مجھے مدعو کرتے اور ہم دونوں اس ڈش سے لطف اندوز ہوتے۔ شہباز صاحب سے جتنی محبت میں کرتا تھا، شاید اس سے زیادہ محبت وہ مجھ سے کرتے تھے۔ وہ مجھے جب ملتے اس طرح ملتے جیسے کوئی بہت پرانے بے تکلف دوست ہوں، وہ کئی بار کسی دلچسپ گفتگو کے دوران میرے ہاتھ پر ہاتھ مار کر ہنستے۔ ایک بار وہ کسی تقریب کی صدارت کر رہے تھے اور مجھے یہاں سے ایک اور جگہ جانا تھا، میں نے شہباز صاحب کو چٹ بھیجی جس میں ، میں نے معذرت کی تھی کہ مجھے کہیں جانا ہے۔ انہوں نے اسکے جواب میں جو رقعہ مجھے بھیجا، وہ پڑھنے کی چیز ہے۔ انہوں نے مجھے رُکنے کیلئے کہا تھا، مگر وہ پڑھ کر مجھے اپنی ہنسی پر قابو پانا بہت مشکل لگا، اس طرح کی بات کوئی بہت ہی قریبی دوست کر سکتا تھا۔ وہ رقعہ میرے پاس موجود ہے، مگر عائشہ عظیم کی مرتب کی ہوئی کتاب ’’عطاء الحق قاسمی کے نام مشاہیر کے خطوط‘‘ میں وہ خط شامل نہیں، کیونکہ میں نے عائشہ کو وہ خط دیا ہی نہیں تھا۔پھر یوں ہوا کہ وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف کی حکومت نے مجھے پاکستان ٹیلیوژن کی چیئرمین شپ کیلئے نامزد کر دیا۔ میں نے یہ اطلاع دینے کیلئے شہباز صاحب کو دوبار فون کیا مگر وہ اٹینڈ نہ کر سکے۔ میں نے پی ٹی وی جائن کر لیا، جس پر ایک دن مجھے ان کا فون آیا۔ ان کے لہجے میں ناراضی تھی، وہ کہہ رہے تھے کہ آپ نے مجھے بتایا کیوں نہیں، جبکہ میں نے انہیں بتانے کیلئے دو بار فون کیا تھا۔