• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے فیصل آباد کے تھانے میں درج تین مقدمات میں پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان کی گرفتاری کیخلاف فوجی تنصیبات اور سرکاری عمارات پر حملوں اور شہداء کے مجسموں کی بے حرمتی کے الزامات ثابت ہونے پر پارٹی کے 198رہنمائوں اور کارکنوں کو جو مختلف المیعاد قید کی سزائیں سنائی ہیں توقع ہے اس کے نتیجے میں آئندہ ریاست کے خلاف بغاوت کی کوئی اس طرح کی جرأت نہیں کرسکے گا۔ مبصرین کے مطابق ان مقدمات کی سماعت زیادہ مدت تک چلتے رہنے سے یہ گمان ہو رہا تھا کہ معاملے کو سرد خانے کی نذر کیا جارہا ہے مگر ایسے موقع پر جب تحریک انصاف کے بانی جو مختلف نوعیت کے سنگین مقدمات کے تحت قید کی سزا بھگت رہے ہیںاور انکی رہائی کیلئےتحریک چلائی جانیوالی ہے سزائوں کا اعلان پارٹی کے لئے بہت بڑا دھچکا ہے۔ عدالت کے فیصلے کے مطابق قومی اسمبلی سینٹ اور پنجاب اسمبلی میں حزب اختلاف کے قائدین سمیت پارٹی کے کئی سرکردہ رہنمائوں کو دس دس سال قید سنائی گئی ہے۔ فیصل آباد میں حساس ادارے کے دفتر پر حملےکے الزام میں سول لائنز تھانے میں درج مقدمے کے 108ملزمان کو سزا دی گئی جبکہ 79کو بری کردیا گیا۔ ادھر اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے سابق صدر عارف علوی اور خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور سمیت پی ٹی آئی کے 50رہنمائوں کے وارنٹ گرفتاری جاری کردیئے ہیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے فیصل آباد کی عدالت کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ آج ملک میں قانون کی حکمرانی اور انصاف کا دن ہے۔ آئندہ کوئی بھی 9مئی جیسی گھنائونی سازش نہیں کرسکے گا۔ شرپسند عناصر کو آئین اور قانون کے مطابق سزائیں دی گئی ہیں۔ تاہم پی ٹی آئی کے رہنمائوں نے فیصلے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ پارٹی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے خلاف فیصلے سیاسی بنیاد پر کئے گئے۔ انہیں ہائیکورٹ میں ہم چیلنج کریں گے۔ اب ایوان میں رہنا یا بائیکاٹ کرنا ہے، یہ معاملہ بانی کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ اور وہ جو فیصلہ کریں گے اس پر عمل کیا جائے گا اسکے خلاف تحریک چلانے کا فیصلہ بھی بانی کی صوابدید پر ہوگا۔ پی ٹی آئی کے ترجمان نے کہا ہے کہ ان فیصلوں کا اصل مقصد 5اگست کے عوامی احتجاج کو روکنا ہے۔ یہ ایک منظم سازش ہے جو موجودہ حکومت کے فسطائی نظام کا وطیرہ بن چکی ہے۔ مبصرین نے خصوصی عدالت کے فیصلے کو بہت بڑا اقدام قرار دیا ہے جو پی ٹی آئی کے لئے بھی حیرت اور صدمے کا باعث ہوگا۔ ایسا لگتا ہے کہ پی ٹی آئی بھی اب ایم کیو ایم کی طرح دو دھڑوں میں تقسیم ہوگی اور اس کے نتیجے میں پی ٹی آئی پاکستان وجود میں آئے گی۔ 9مئی اور 26نومبر کے احتجاجی اقدامات نے پی ٹی آئی کی سیاست کو شدید نقصان پہنچایا ہے جو اسمبلیاں توڑنے جیسے دوسرے فیصلوں کی طرح پارٹی قیادت کیلئے پریشانی کا باعث ہے۔ انسداد دہشت گردی کی عدالت کے فیصلے کیخلاف اعلیٰ عدالتوں سے رجوع کرنے کی قانونی گنجائش موجود ہے اور پارٹی قیادت اس اختیار کا استعمال بھی کرےگی چاہے نتیجہ کچھ بھی نکلے لیکن فیصلے کے فوری اثرات بھی ہونگے۔ پارٹی کے بہت سے ارکان جن میں قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی کے قائدین حزب اختلاف بھی شامل ہیں اپنے عہدوں سے فارغ ہو جائینگے۔ ایک تاثر یہ ہے کہ فیصلہ قانون کی نظر میں کتنا ہی درست ہو متاثرہ فریق کیلئے عام لوگوں میں مظلومیت کی سوچ پیدا کرتا ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ پی ٹی آئی مزاحمت کی سیاست جاری رکھ کر اور مفاہمانہ طرز عمل اختیار نہ کرکے اپنے اور ملک کیلئے مزید مسائل پیدا کرتی ہے یا سیاسی کشمکش میں کمی کا راستہ اختیار کرتی ہے۔

تازہ ترین