• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم پاکستان شہباز شریف اِسم با مُسمیٰ ہیں ، صرف نام کے ہی شریف نہیں بلکہ کام میں بھی شریف ہیں ۔ریاست کے نظام میں وہ واحد شخصیت ہیں جو چیف ایگزیکٹو ہونے کے باوجود ہائبرڈ طرز حکومت کو پیشانی پر بل ڈالے بغیر مسکراتے ہوئے چلاتے چلےجا رہے ہیں۔ انہیں آج سے نہیں چار دہائیوں سے یقین ِکامل ہے کہ محنت اور خلوص سے پاکستان کی تقدیر کو بدلا اور اُجالا جاسکتا ہے۔ وہ پرامید ہیں کہ سر نیچے کر کے محنت سے کام کریں گے تو ایک دن واقعی سویلین حکمرانی اپنی اصل شکل میں قائم ہو جائیگی ،وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اہل سیاست کی نااہلی اور بُرے طرز حکمرانی کی وجہ سے ریاست مشکل میں ہے۔وہ نون لیگ کے واحد رہنما ہیں جن کا لڑائی کے دوران بھی مقتدرہ سے دوستی اور تعلق کا رشتہ کبھی کمزور نہیں پڑا ،وہ روزِ اول سے لیکر آج تک یہ سمجھتے ہیںکہ فوج ریاست کی ریڑھ کی ہڈی ہے اور اہلِ سیاست اور فوج ملکر ہی اس ملک کی نَیّا پار لگا سکتے ہیں۔

چند روز پہلے وزیراعظم پاکستان نے وزیر ریلوے حنیف عباسی کی دعوت پر لاہور سے کراچی کیلئے بزنس ایکسپریس ٹرین کا افتتاح کیا بڑے بڑے صحافیوں کےساتھ ساتھ یہ بدنام بھی مدعو تھا، وزیراعظم سب سے فرداً فرداً پیار سے ملے گووہ بجھے بجھے سے لگ رہے تھے ان کی روایتی چمک غائب تھی شاید اسکی وجہ تھکن تھی یا پھر کام کا دباؤ۔ بہرحال وزیراعظم نے اس موقع پر تقریر کے دوران کہا کہ وہ تنقید کا بُرا نہیں مناتے... جونہی یہ الفاظ ان کے منہ سے نکلے میرے دو تین ساتھی صحافیوں نے سرعام اِس بدنام کی طرف اشارے کرنا شروع کر دیئے، ان دوستوں نے گویا بالواسطہ طور پر وزیراعظم کی طرف توجہ دلائی کہ یہی وہ بدنام اور گستاخ ہے جو آپ پر تنقید کرتا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف بھی قیامت کی نظر رکھتے ہیں وہ تاڑ گئے’’ تاڑنے والےتو قیامت کی نظر رکھتے ہیں‘‘، انہوں نے اپنی تقریر میں فوراً وضاحت کی کہ اس گم نام یا بدنام کا ذکر مقصود نہیں اور نہ ہی ان سے کوئی گلہ ہے یہ جو چاہے لکھیں انکی مرضی ہے اور پھر یہ بھی کہا کہ الیکشن سے پہلے انکی تقریر کا تیا پانچا کیا گیاپھر بھی انہوں نے کوئی تعرض نہ کیا تھا۔ اس تبصرے پر وزیراعظم کی کشادہ دلی کی تعریف کرنی چاہئے ورنہ تو حبس اس قدر ہے کہ آجکل نیک دلانہ مشوروں پر بھی بڑے بڑے لوگ تو کیا انکے حواری بھی بگڑ کر گالیاں بَکنے لگتے ہیں اختلاف رائے کو ذاتی جھگڑا تصور کر لیا جاتا ہے۔

وزیراعظم واقعی شریف ہیں کہ پورے ملک کے چیف ایگزیکٹو اور وزیراعظم ہونے کے باوجود ان کیساتھ نہ وزیراعلیٰ پنجاب موجود تھیں نہ چیف سیکرٹری اور نہ ہی آئی جی پولیس۔ حالانکہ پروٹوکول کا تقاضا ہے کہ وزیراعظم لاہور آئیں تو صوبے کی ٹاپ انتظامیہ ان کے ہم رکاب ہو۔ پنجاب کی یہی بے اعتنائی ہمیں صدر پاکستان آصف علی زرداری کے دورے کے دوران بھی نظر آتی ہے، صدر سےتو گویاخیر سگالی ملاقاتوں کی روایت ہی ختم کردی گئی ہے۔ اسے غرور کہیں، تکبّر کا نام دیں یا پھر بے انتہا مصروفیات کا نام دےلیں یہ روایت فیڈریشن کے اتحاد کیلئے خطرے کی علامت ہے، اگر یہی کام سندھ اور بلوچستان نے وزیراعظم شہبازشریف کے ساتھ شروع کر دیا تو پنجاب کے وزیراعظم کی کیا عزت رہ جائے گی۔؟ نوازشریف سندھ کے دورے پر گئے تھے تو آصف زرداری نے بلاول بھٹو کو انکی ہم رکابی اور ہر جگہ جذبہ خیرسگالی ظاہر کرنے کا پیغام دیا تھا، پنجاب حکومت کی طرف سے یہ تساہل یا غلطی جہاں سے بھی ہو رہی ہے اس کا فوراً تدارک کرنا چاہئے آج کا وزیراعظم تو شریف ہے کل کا وزیراعظم شریف نہ ہوا تو اس کا کوئی منفی ردعمل بھی آسکتا ہے اور پنجاب کے تکبّر پر معنیٰ خیز سوال اُٹھ سکتے ہیں۔

شریف وزیراعظم لاہور میں پیدا ہوئے ہیں ،یہیں پلے بڑھے، بزنس کیا اور یہیں سے سیاست کا آغاز کرکے اقتدار و اختیار کی چوٹیوں کو سر کیا۔ پنجاب کی حکمرانی سے انہوں نے گڈ گورننس اور شہباز اسپیڈ جیسے اعزازات پائے، جب وہ اقتدار کے شہرِ کوفہ میں مسند افروزہوئے تووہ لاہور اور کوفہ کا فرق و امتیاز پہلے سے جانتے تھے، اس لئے انہوں نے اپنی مرضی کی جو کابینہ بنائی اس میں وفادار اسٹاف افسروں کی اکثریت تھی انہوں نے اپنی آزمودہ ٹیم کے ذریعے کوفہ کو سر کرنے کا عزم باندھا۔ اپنی ٹیم کےجہاندیدہ، آزمودہ کار اور سمجھ دار ترین کھلاڑی توقیر شاہ کو سیاسی عہدہ اور مشاورتی تمغہ دیکر وزیراعظم سیکرٹریٹ کا انچارج بنایا، لاہور کے ادارہ ترقیات کے احد چیمہ کو اپنا معتمد خاص وزیر بنا کر ہر وزیر اور اس کے منصوبوں پر نظر رکھنے کی ذمہ داری دی، اطلاعات کے حوالے سے اپنے خاندانی تعلق والے عطاء اللہ تارڑ کو ذمہ دار بنایا، قانون کی ذمہ داری اپنے خاندانی راز دار اور ٹاپ کے وکیل اعظم نذیر تارڑ کو سونپی۔ نوجوان صحافی حذیفہ رحمن کو بھی ان کے مشوروں کے باعث وزیر مملکت بنا دیا۔ بظاہر انکی مرضی کی ٹیم کو لاہور سے زیادہ اسلام آباد میں چمکنا چاہئے تھا۔ پنجاب کی کابینہ میں سیاسی عناصر کا غلبہ ہوتا تھا جبکہ وفاقی کابینہ میں تو سیاسی عناصر آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ تاہم اقتدار کے شہر کوفہ میں وزیراعظم کی ’’پسندیدہ‘‘، ’’آزمودہ‘‘ اور ’’کرشمہ ساز‘‘ ٹیم ابھی تک کامیابی کا جھنڈا گاڑنے کی کوششوں میں ہے ،نہ سیاست ہو رہی ہے اور نہ دور رس سیاسی فیصلے۔ شوگر کی برآمد اور درآمد کا اسکینڈل اس ٹیم کی موجودگی میں ہوا،آخر کوئی تو ذمہ داری لے۔ کرپٹو کے حوالے سے جو افواہیں پھیل رہی ہیں، ان کا تدارک کون کرے گا۔؟ کچھ لوگ شریف وزیراعظم کے دفاع کے طور پر کہتے ہیں کہ وہ چکی کے دو پاٹوں میں پسنے والے دانوں کی طرح ہیں ایک طرف ریاست کا جبر ہے تو دوسری طرف پارٹی اور خاندان کا دباؤ۔وہ جائیں تو کدھر جائیں۔ ابھی ایف بی آر کے حوالے سے صنعتکاروں اور تاجروں نے فیلڈ مارشل کے سامنے شکایات کے دفتر کھول دیئے ہیں گویا شوگر، کرپٹو کے بعد اب ایف بی آر اصلاحات پر بھی سوال اٹھیں گے اور ان میں تبدیلیاں بھی ہوں گی۔

شریف وزیراعظم کہہ سکتے ہیں کہ جو بدنام مسئلے ان پر تھوپے جا رہے ہیں ان کا سرے سے ان سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ وزیراعظم اور ان کی آزمودہ ٹیم سے جن حیرت ناک تبدیلیوں کی توقع تھی وہ رونما نہیں ہو رہیں بلکہ انکے رونما ہونے کے آثار بھی نہیں ہیں شریف وزیراعظم کا ماضی اور ان کا محنت و مشقت سے تیارکردہ ورثہ اس قدر تابناک ہے کہ لوگ کوفہ کو بھی لاہور کی طرح مسخر دیکھنا چاہتے ہیں۔ اگر شریف وزیراعظم لاہور کی اندھیری گلیوں، تپتے بازاروں تک کو سر کر سکتے ہیں تووہ مارگلہ کی پہاڑیوں سے کوفے کے آثار ختم کرکے اسے واقعی اسلام آباد کیوں نہیں بنا سکتے۔؟

تازہ ترین