ہم تضادستانی ابھی تک فرانسیسی ناول نگار بالزاک کے عہد میں جی رہے ہیں۔بالزاک نے 1835ء میں یہ مشہور عام فقرہ لکھا تھا ’’ہر بڑے سرمائے کے پیچھے جُرم ہوتا ہے‘‘۔ یہی وُہ سوچ تھی جس نے عدالت عظمیٰ تک کے ججوں کو اس افسانوی فقرے کا سہارا لیکر عدالتی فیصلے لکھنے کی تحریک دی تھی۔ اس ذہنیت نےلوگوں میں ہر دولت مند کے خلاف بغض و عناد کا زہر بھر رکھا ہے۔ ہر بڑی گاڑی اور بڑے گھر کے بارے میں ہماری عمومی رائے یہی ہوتی ہے کہ اس امیرانہ علامت میں کہیں نہ کہیں ہمارا خون شامل ہے۔ یہ سوچ کمیونزم کے نظریے سے مطابقت رکھتی تھی اب جبکہ عملی طور پر کمیونزم کا کہیں وجود نظر نہیں آتا بائیں بازو کی سوچ اب سوشلزم کی شکل میں زندہ ہے مگر چینی سوشلزم میں امیروں، دولت مندوں اور سرمایہ داروں کو نفرت اور حسدِ کی نظر سے نہیں بلکہ رشک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ تضادستان میں مگر ابھی تک وہی حال ہے۔ حادثہ ہو جائے تو ہر کوئی سائیکل سوار سے ہمدردی اور کار کے مالک سے نفرت ظاہر کرتا ہے، چاہے قصور سراسر سائیکل سوار کا ہو۔ وجہ وہی کہ’’ ہر دولت مند مجرم ہے‘‘۔ جب تک تضادستان میں یہ ذہنیت تبدیل نہیں ہوتی اس وقت تک سرمائے کی بڑھوتری اور دولت کی زیادہ پیدائش کا امکان نہیں۔ یہاں تو یہ وبا عام ہے کہ ہر افسر اٹھ کر کہہ دیتا ہے کہ سارے تاجر اور صنعتکار چور ہیں ،یہ سب ٹیکس چراتے ہیں، ان سب کو گرفتار کرکے جیلوں میں بند کر دینا چاہئے۔ حال ہی میں صنعت کاروں اور تاجروں نے ایف بی آر کے حوالے سے یہی شکایت فیلڈ مارشل سیدعاصم منیر سے بھی کی ہے۔
آج کا دور معیشت کا ہے اور معیشت کا پہیہ دولت کے بڑھانے سے ہی آگے کو چلتا ہے۔ نامور صنعتکار اور اپٹما کے سرپرست گوہر اعجاز کے ادارے نے ایک انتہائی دلچسپ تحقیق کی ہے جسکے مطابق اس وقت پاکستان میں ڈالروں میں 35خاندان ارب پتی ہیں، ان میں سے 15 تو وہ پرانے خاندان ہیں جو ماضی کے 22 دولت مند گھرانوں میں شامل تھے، ان22 میں سے 7خاندان اب ڈالروں میں ارب پتی کی کیٹگری سے نکل گئے ہیں جبکہ 10 نئے خاندان ڈالروں کے حساب سے ان ارب پتی خاندانوں میں شامل ہو چکے ہیں ۔اس تحقیق کے مطابق پاکستان کی ترقی کی امید انہی 35بڑے خاندانوں سے ہے۔ بیرونِ ملک سے کوئی بڑا سرمایہ کار پاکستان آکر انکا مقابلہ نہیں کر سکتا پہلے بھی جن ملٹی نیشنل کمپنیوں نے پاکستان میں سرمایہ کاری کی ہے ان کے لوکل پارٹنر35 امیر خاندانوں میں سے ہی کوئی ایک ہے۔
ایڈم اسمتھ کو جدید معاشیات کا باپ تصور کیا جاتا ہے شاید اسی وجہ سے برطانوی کرنسی کے 20پائونڈ کے نوٹ پر اب بھی اس کی تصویر نظر آتی ہے ۔اس کے فلسفے کا نچوڑ یہ ہے کہ دولت کی تخلیق یا بڑھائو دراصل ایک سماجی نیکی ہے ’’صرف وہی معاشرہ ترقی نہیں کر رہا ہوتا اور نہ ہی اسے خوش حال معاشرہ کہہ سکتے ہیں جس کا زیادہ تر حصّہ غریب ہو‘‘ گویا لوگوں کی مالی بہتری کسی سماج میں نیکی سے کم نہیں۔ اگر معیشت کے اس جدید اور کامیاب ترین نظریے کو سامنے رکھا جائے تو یہ ڈالروں میں ارب پتی35 خاندان ہی پاکستان کی سب سے بڑی امید ہیں مگر افسوس تو یہ ہے کہ سرکار کا محکمہ ایف بی آر ہو یا عوام کا محکمہ سوشل میڈیا ،یہاں تو ہر ایک چور ہے اگر یہی چور چور کی صدائیں جاری رہیں تو کہیں یہ 35امیدیں بھی تضادستان سے اُڈاری مارکر ان سبز چرا گاہوں میں نہ جابسیں جہاں انہیں چور ڈاکو کہنے کی بجائے سر آنکھوںپر بٹھایا جائے۔
اگر تو ہم نے ایڈم اسمتھ کی آزاد معیشت اور مارکیٹ اکانومی کے سفر کو آگے بڑھانا ہے تو ان 35ارب پتیوں کو بلا کر عزت و اکرام دیا جائے کہ ناسازگار ماحول کے باوجود آپ نے سرمایہ پیدا کیا ہے ۔اوران سے پوچھا جائے کہ مزید دولت کیسے پیدا کی جائے؟ جو اقدامات وہ تجویز کریں ان پر عمل کیاجائے تاکہ دولت پیدا ہو اور غربت کم سے کم ہو۔
پاکستان کی تاریخ میں 60ء اور 70ء کی دہائی میں سوشلزم کا نعرہ مقبول تھا اسی زمانے میں 22خاندانوں کا غلغلہ ہوا۔ ڈاکٹر محبوب الحق نے ایوب دور میں انہی 22خاندانوں کو ارتکازِ دولت کا ذمہ دار ٹھہرایا پھر سوشلسٹ دنیا کی پیروی کرتے ہوئے بھٹو صاحب نے کئی صنعتیں، تعلیمی ادارے اور تجارتی گروپ قومیا لئے مگر یہ تجربہ کامیاب نہ ہو سکا ڈالر اور روپیہ بہت ڈرپوک ہوتا ہے جہاں اسے خطرہ نظر آئےوہ وہاں سے بھاگ جاتا ہے۔ نیشنلائزیشن نے دولت کے پھیلائوکو روک دیا ڈالر اور روپیہ دنیا بھر میں بھاگنا شروع ہو گیا۔ اب بھی جب چور چور کا نعرہ لگتا ہےتو ڈالر کبھی دبئی، کبھی لندن، کبھی امریکہ اور کبھی یورپ فرار ہو جاتا ہے۔ یہ عجیب معاملہ ہے کہ اس ڈالر اور روپے کی اڑان خطرے کی وجہ سے ہوتی ہے لیکن اسے اگر واپس لانا ہو تو یہ کام جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے۔ حکومت کا کام یہی ہے کہ ڈالر اور روپیہ کیلئے آسانی پیدا کرے، خوف کو دور کرے تاکہ کم از کم یہ 35 ارب پتی خاندان تو اپنا سرمایہ پاکستان میں مزید پھیلائیں اور باقی دنیا کو بھی اگر باہر سے بلانا ہے تو وہ انہی کے ذریعے سے آئے گی جیسے گھر کے پالتو کبوتر دانہ کھا رہے ہوں تو جنگلی کبوتر بھی ان کے سہارے آپ کی چھت پر بسیرا کر لیتے ہیں۔
سوشل ڈیموکریسی کا نظریہ بینظیر بھٹو کے دل کے بہت قریب تھا اس نظریہ کا مارکیٹ اکانومی کے ساتھ ساتھ عوامی بھلائی پر بھی زور ہوتا ہے۔ آج کی سرمایہ دار دنیا میں مارکیٹ اکانومی کے ساتھ ساتھ حکومتوں کا کردار یہ ہے کہ وہ آزاد سرمائے کیلئے پالیسیاں ترتیب دے اور ساتھ ہی مناپلی اور کارٹلائزیشن کے تدارک کا انتظام کرئے۔ امریکہ میں فری مارکیٹ کے اندر یہ خرابی 20 ویں صدی کے شروع میں در آئی تھی اور بڑے بڑے صنعت کاروں اور سیٹھوں نے آپس میں گٹھ جوڑ کرکے اجارہ داریاں اور ناجائز گروہ بندیاں بناکر عام لوگوں سے بہت زیادہ منافع لینا شروع کر دیاتھا حالانکہ قانون مسابقت کی اجازت دیتا ہے اور اجارہ داری کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ 1920ء کی دہائی میں امریکی کانگریس نے مناپلی اور کارٹلائزیشن Cartelizationکے خلاف سخت قوانین منظور کئے۔ پاکستان میں سرمایہ داری کی حوصلہ افزائی کے ساتھ حکومتی مسابقتی پالیسیوں کا سختی سے نفاذ بھی ضروری ہے تاکہ نئے ارب پتی اور کروڑ پتی بنیں، دولت کا انہی پرانے گھرانوں میں ارتکاز نہ ہو۔ جب صرف چند خاندان امیر ہوں اور خلقت غریب ہوتو انقلاب آجاتا ہے اور اگر امیروں کی تعداد بڑھتی جائے اور غریبوں کی تعداد کم ہوتی جائے تو ریاست فلاحی شکل اختیار کرتی جاتی ہے۔