(گزشتہ سے پیوستہ)
اس وقت میاں نواز شریف کے قد کاٹھ کا کوئی لیڈر ہمارے درمیان نہیں ہے۔ انہوں نے قید تنہائی کاٹی، جیل کا ایک سیل جس میں کسی طرف سے روشنی کا گزر نہیں تھا، گھپ اندھیرا، نہ دن کا پتہ چلتا تھا نہ رات کا، کھانا لانے والے کو اجازت نہیں تھی کہ وہ اس ’’قیدی‘‘ سے بات کرے اور اس کی کسی بات کا جواب دے۔ اس شخص کو جہاز میں ہتھکڑیاں لگا کر لایا گیا، اس کی بیوی زندگی کے آخری سانس لے رہی تھی۔ اسے دیکھنے کی اجازت نہ ملی۔ بیٹی مریم نواز کو باپ کے سامنے گرفتار کیا گیا، زندگی کے بہت سے قیمتی سال انہیں پردیس میں گزارنا پڑے۔ ہائی جیکنگ کے مضحکہ خیز الزام میں انہیں گرفتار کیا گیا جس کی سزا، سزائے موت تھی۔ یہ شخص اپنے اصولوں کی خاطر وزارتِ عظمیٰ سے محرومی کو خاطر میں نہ لایا اور وہی کہا اور کیا جو اس کے ضمیر کی آواز تھی۔ اس کی ایک ہاں سے اس کے سارے ’’گناہ‘‘ معاف ہو سکتے تھے مگر یہ چیز اس کے خون میں شامل نہیں تھی۔ نواز شریف کی بہادری اور جراتِ رندانہ کے علاوہ ایک صفت ایسی ہے جو کم کم لوگوں میں پائی جاتی ہے۔ وہ ایک اعلیٰ درجے کے انسان ہیں، غرور اور تکبر ان کے قریب سے نہیں گزرا۔ وہ اللہ کے عاجز بندے ہیں اور مجھے اس حوالے سے اتنے واقعات یاد ہیں کہ وہی بیان کروں تو ختم ہونے میں نہ آئیں، میاں صاحب جب دو تہائی اکثریت سے کامیاب ہوئے تو میں بہت خوش تھا کہ انتخابات کے دوران اور اس سے بھی بہت پہلے میرا ہر دوسرا کالم ان کے حوالے سے ہوتا تھا اور یوں ان کی کامیابی مجھے اپنی کامیابی محسوس ہوئی مگر میں نے دعوت نامے کے باوجود ان کی تقریب حلف برداری میں شرکت نہیں کی۔ جس دن ان کی فتح کا اعلان ہوا اس روز لاہور کی ساری سڑکوں کا رُخ نواز شریف کے آفس ماڈل ٹائون کی طرف تھا، لاہورئیے جوق در جوق انہیں مبارک باد کہنے کیلئے رواں دواں تھے۔ بس ایک میں تھا جو ان کی طرف نہیں گیا۔ ایک روز گھر کے ٹیلی فون کی گھنٹی بجی، دوسری طرف نواز شریف بلکہ وزیراعظم نواز شریف تھے، ان کا پہلا جملہ تھا ’’قاسمی صاحب! میں نے سوچا آپ بہت مصروف آدمی ہیں، میں ہی آپ کو مبارک باد کہہ دوں۔ اس پر میں نے قہقہہ لگایا۔ ان کا ذرا اگلا جملہ سنیں ’’قاسمی صاحب! آپ کل مجھے کچھ وقت دے سکتے ہیں؟‘‘میں نے کہا میاں صاحب مجھے شرمندہ نہ کریں، آپ بتائیں میں کس وقت حاضر ہو جائوں۔ وہ اصرار کرتے رہے کہ آپ اپنی سہولت کا وقت بتائیں۔ بہرحال آخر میں شاید گیارہ بجے صبح کا وقت طے ہوا۔ میں وقت مقررہ پر ماڈل ٹائون چلا گیا۔ وہاں لوگوں کا ایک ہجوم تھا جو مبارک باد کہنے کیلئے جمع تھا۔ میاں صاحب مجھے ایک ٹیبل پر لے گئے اور کہا میں آپ کی خدمات کا دائرہ وسیع کرنا چاہتا ہوں۔ میں مسلسل ان کا شکریہ ادا کرتا رہا اور معذرت بھی، مگر بالآخر مجھے عارضی طور پر ہتھیار ڈالنے پڑے۔ یہ قصہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں، لہٰذا آگے چلتے ہیں، میں انہیں جب کبھی ملنے جاتا، واپسی پر وہ مجھے کار تک چھوڑنے آتے اور گاڑی کی روانگی تک وہیں کھڑے رہتے۔ ایک دفعہ مجھے ان کا فون آیا ’’قاسمی صاحب! آپ کہاں ہیں؟‘‘ میں نے عرض کیا ’’الحمرا میں ہوں‘‘ بولے ’’میں ادھر سے گزر رہا ہوں اگر آپ اجازت دیں تو میں ملنے آ جائوں؟‘‘یہ بات ملک کا وزیراعظم کہہ رہا تھا وہ جب الحمرا میں داخل ہوئے تو سارا عملہ پریشان ہو گیا، وہ کافی دیر بیٹھے گپ شپ کرتے رہے۔ اسی طرح ایک دن ان کا فون آیا کہ میں کل تین بجے آپ سے ملاقات کیلئے آ سکتا ہوں۔ میں اس وقت اپنے ’’معاصر‘‘ کے دفتر میں تھا، اب میں انہیں کیا کہتا کہ پلیز میرے ساتھ یہ ’’سلوک‘‘ نہ کریں، بہرحال ٹھیک تین بجے دروازہ کھلا اور وہ میرے دفتر میں تھے۔ وزیراعظم کی آمد سے پہلے دس دفعہ ان کے پی اے کا فون آتا ہے ، انسپکٹر لوکیشن کا جائزہ لینے آتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ مگر ان میں سے کچھ نہ ہوا۔ چنانچہ میں ان کے استقبال کیلئے دفتر سے باہر نہ جا سکا۔ وہ آئے اور میرے سامنے والی کرسی پر ایک عام آدمی کی طرح بیٹھ گئے۔ میں نے بہت اصرار کیا کہ پلیز مجھے شرمندہ نہ کریں، آپ ادھر مین چیئر پر آئیں مگر وہ وہیں بیٹھے رہے۔ مجھے بعد میں پتا چلا کہ وہ دفتر میں کسی کو اطلاع دیے بغیر میری طرف آئے ہیں۔ گاڑی بھی خود ڈرائیو کی، رستے میں ریڈ بتی پر رُکتے بھی رہے۔ تقریباً ایک گھنٹے بعد ان کے عملے کو محسوس ہوا کہ وزیراعظم صاحب دفتر سے غائب ہیں۔ چنانچہ ایک سفید کار انہیں ڈھونڈتی ڈھانڈتی میرے آفس کے باہر آن کھڑی ہوئی۔ایک بار میں نے انہیں اپنے ’’معاصر‘‘ کے دفتر میں چائے پر بلایا اور لاہور کے نمایاں صحافی بھی مدعو کیے بلکہ چکوال سے برادرِ عزیز ایاز امیر کو بھی مدعو کیا، جو لوگ میاں صاحب کو بھولا بھالا سمجھتے ہیں، وہ ان کی شخصیت کی گہرائی سے واقف ہی نہیں ہیں۔ صحافیوں سے ہاتھ ملاتے ملاتے ایاز امیر کے پاس پہنچے، یہاں یہ وضاحت کر دوں کہ ان دنوں ایاز امیر میاں صاحب کے خلاف بہت تند و تیز کالم لکھ رہے تھے۔ میاں صاحب ان کے پاس گئے اور بہت گرم جوشی سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا ’’میں ان دنوں آپ کے کالم بہت شوق سے پڑھ رہا ہوں اور پھر آگے بڑھ گئے۔ صحافیوں سے گپ شپ کے دوران انہوں نے میرے کان میں کہا ’’یہاں سے اُٹھ کر کھانا کھانے جائیں گے اور پھر وہ مجھے اور کچھ دوسرے لوگوں کو خان بابا کے ریستوران لے گئے۔ اب وہاں سارا عملہ حیران و پریشان کہ وزیراعظم پاکستان ان کے پاس چل کر آئے ہیں۔ خان بابا کی بیوہ میاں صاحب کے پاس آئی اور میاں صاحب اس سے کچھ دیر باتیں کرتے رہے۔ بہرحال بل آیا تو وہ پینتیس ہزار تھا جو میاں صاحب نے ادا کر دیا۔میں یہ واقعات بیان کرتا جائوں تو ختم ہونے میں نہیں آئینگے۔ ایک دفعہ وہ مرحومہ و مغفورہ کلثوم بیگم کے ساتھ بھی میرے غریب خانے پر آئے تھے۔ ایک دفعہ میں نے انہیں اپنے دس مرلے کے گھر واقع اقبال ٹائون میں مدعو کیا اور شہر کی نمایاں شخصیات کو بھی میں نے دعوتِ طعام دی تھی۔ میں نے میاں صاحب سے پوچھا کہ آپ کھائینگے کیا؟ انہوں نے مچھلی کی فرمائش کی مگر شرط عائد کی کہ دیسی مچھلی ہونی چاہیے۔ وہ جب کھانا کھا رہے تھے مجید نظامی بھی ان کے پاس کھڑے تھے۔ میں نے میاں صاحب سے پوچھا کہ مچھلی دیسی ہے کہ نہیں؟ انہوں نے اثبات میں جواب دیا اور دیسی مچھلی کی دس نشانیاں بتائیں۔ مجھے ہنسی بھی آئی اور یہ سوچ بھی کہ ملک و قوم کے بارے میں اتنے بڑے بڑے فیصلے کرنے والے کو مچھلی کے نام و نسب کا پتا ہے۔ گزشتہ ماہِ رمضان میں انہوں نے محبت کی انتہا کر دی۔ میری فیملی کو اپنے گھر افطاری پر بلایا وہاں ان کے خاندان کے سب بڑے چھوٹے موجود تھے، ہمارے سوا باہر کا کوئی شخص نہیں تھا۔ ہمیں اپنی فیملی کے ایک فرد کے طور پر بلایا گیا تھا، محبت اور یگانگت کا اس سے بہتر نمونہ اور کیا ہو سکتا تھا۔ (جاری ہے)