وقت کیساتھ ساتھ نئی نسل کی سوچ بھی یکسر بدل چکی ہے، آج کا نوجوان نہ صرف خودمختار سوچ رکھتا ہے بلکہ وہ اپنی ازدواجی زندگی کے فیصلے میں بھی ذاتی شمولیت کو لازمی سمجھتا ہے۔بنا دیکھے، صرف ماں باپ کی پسند پر شادی اب قصہ پارینہ ہوتی جارہی ہے۔ خاص طور پر مغرب میں پیدا ہونے والی یا وہاں پروان چڑھنے والی نسل اب والدین کی اندھی تقلید نہیں کرتی، بلکہ تعلیم، مزاج، پروفیشن ،سماجی برابری اور جذباتی ہم آہنگی جیسے عوامل کو اپنی زندگی کے فیصلوں میں بنیادی حیثیت دیتی ہے۔چند دہائیاں قبل جب شادیوں کا ذکر ہوتا تو بزرگوں کی پسند، خاندانی روایات اور ماں باپ کی مرضی کو ہی سب کچھ سمجھا جاتاتھا ،لیکن آج کا دور مختلف ہے، آج نوجوان لڑکے اور لڑکیاں خودمختار سوچ رکھتے ہیں، تعلیم یافتہ ہیں، آزادی سے واقف ہیں اور اپنے جیون ساتھی کا انتخاب خود کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے میں والدین، خاص طور پر بیرونِ ملک مقیم پاکستانی والدین،جنکے سماجی رابطے اور رسائی کم ہوتی ہے شدید کشمکش اور بے چینی کا شکار ہو جاتے ہیں ۔پاکستانی والدین، جنہوں نے امریکہ، کینیڈا یا برطانیہ جیسے ممالک میں زندگی کے سخت مراحل طے کرکے اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم، سہولیات اور خوشحال مستقبل دیا، آج اسی نوجوان نسل کی ازدواجی زندگی کے بارے میں فکرمند دکھائی دیتے ہیں ۔ اُن کا سب سے بڑا خدشہ یہ ہے کہ انکے بچے کہیں مغربی اقدار میں اتنے نہ رچ بس جائیں کہ انکی خاندانی اور دینی روایات ، عزیز و اقارب اور آبائی وطن سے وابستگی پسِ پشت چلی جائے۔بدقسمتی سے پاکستان ہو یا بیرونِ ملک، رشتوں کا مسئلہ ہر جگہ بڑھتا جا رہا ہے۔ تعلیم، معاشی مقام، مذہبی رجحان اور خاندانی مزاج میں ہم آہنگی کی تلاش مشکل تر ہوتی جا رہی ہے۔ مغربی معاشروں میں پروان چڑھنے والے پاکستانی بچے اکثرمختلف ماحول ، اعلیٰ تعلیم ،اچھی ملازمت، اور خود اعتمادی کی وجہ سے ایک مخصوص معیار رکھتے ہیں، جس سے والدین کیلئے ہم پلہ رشتہ تلاش کرنا بیرون ملک یا آبائی وطن میں مشکل ہو جاتا ہے۔ بیرون ملک پرورش پانے والی اکثرلڑکیاں پاکستان سے آنے والے لڑکوں کو مغربی تہذیب و تمدن سے نا آشنا، صرف گرین کارڈ یا شہریت کالالچی سمجھتی ہیں، جبکہ پاکستان کے لڑکے ان بچیوں کو مغربی تہذیب سے متاثر یا آزاد خیال سمجھتے ہیں۔ اس دو طرفہ بداعتمادی نے بیرون ملک نوجوان نسل کو الجھن اور تنہائی کا شکار کر دیا ہے۔ پاکستان میں بھی یہی مسئلہ بڑھ رہا ہے۔ تعلیم یافتہ لڑکیوں کیلئے رشتے نایاب ہوتے جا رہے ہیں، کیونکہ یا تو لڑکے ملک چھوڑ چکے ہیں، یا مالی اور فکری ہم آہنگی کا فقدان ہےجبکہ سب کا معیار خوبصورتی ہے ۔اکثر لڑکیاں اعلیٰ تعلیم اور کیریئر بنانے یا مناسب رشتوں کے انتظار میں زائدالعمر ہو جاتی ہیں، اور پھر معاشرہ انہیں قصوروار ٹھہراتا ہے۔ادھر والدین کی محنت اور محبت کا عالم یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی کی جمع پونجی بچوں کی مہنگی تعلیم پر لگا دیتے ہیں ۔ملک کے مہنگے تعلیمی اداروں یا امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا یا برطانیہ کے اعلیٰ اداروں میں پڑھانے کے بعد، وہ یہ توقع رکھتے ہیں کہ بچے اب عملی، سنجیدہ اور روایتی انداز اور انکی رضا مندی سے زندگی کے بڑے فیصلے کریں گے۔ مگر المیہ یہ ہے کہ جب وقت آتا ہے شادی، خاندانی ترجیحات اور دوسرے اہم فیصلوں کا، تو نوجوان اکثر الجھن، بے زاری ، غیر سنجیدگی یا لاتعلقی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ کئی والدین خود یہ شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ بچے اب ان سے مشورہ نہیں کرتے، ان سے دور ہو گئے ہیں ۔آج کی نوجوان لڑکی اگر ڈاکٹر، انجینئر ،فنانشل ، کمپیوٹر اینالسٹ بن جائے یا کسی بھی اچھی ملازمت یا پروفیشن میں چلی جائے ، تو اُس کیلئے ایسا شریکِ حیات تلاش کرنا جو نہ صرف تعلیمی طور پر برابری رکھتا ہو بلکہ سوچ، مزاج ، اسٹیٹس اور خاندانی اقدار میں بھی ہم آہنگ ہو ،ایک نہایت کٹھن مرحلہ بن چکا ہے۔ ایسے ہی مسائل ہیں جنہیں بیرون ملک کچھ مذہبی ، سماجی تنظیموں اورسوشل پلیٹ فارمز نے پہچانااور گزشتہ کئی برسوں سے انہیں حل کرنے کی کوششیں کر رہی ہیں ۔
گزشتہ دنوں امریکہ کے شہر ڈیلس ٹیکساس میں پاکستانی نژاد ڈاکٹروں کی تنظیم’’اپنا‘‘کا سالانہ سمر کنونشن منعقدہوا۔ اس کنونشن کا ایک اہم ایونٹ ہر سال کی طرح نوجوان لڑکے اور لڑکیوںکیلئے ایک میچ میکنگ سیشن تھا، جس میں شادی کی عمر کو پہنچنے والے نوجوان بچے بچیاں اپنے ہم خیال ساتھی کی تلاش میں اکٹھے ہوئے۔ یہ کوشش اس بات کی عکاس ہے کہ نئی نسل اب بھی اپنی مذہبی اور سماجی روایات سے جڑی رہنا چاہتی ہے اور انکے والدین بھی نئے زمانے کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے بچوں کو موقع فراہم کرتے ہیں کہ عملی زندگی میں داخل ہوتے ہوئے اہم فیصلے خود کریں ۔ ایسے پروگرام بیرون ملک مقیم پاکستانی نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو مذہبی اور سماجی روایات کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے ہم خیال ،ہم مزاج اور دیگر خصوصیات کے حامل جیون ساتھی تلاش کرنے کا ایک باوقار اور جدید ذریعہ فراہم کرتے ہیں ۔ایسے ایونٹس کا انعقاد اس بات کا ثبوت ہے کہ مغربی معاشرے میں رہتے ہوئے بھی ہماری نوجوان نسل کی اکثریت اپنی قدروں اور والدین کی خواہشات سے مکمل پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں بلکہ وہ انہیں نئے انداز سے زندہ رکھنے کی خواہاں ہے۔اگرچہ ایسے فورمز ابتدائی رابطے کا ذریعہ تو بنتے ہیں لیکن اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ والدین اور نوجوان نسل کے درمیان کھلا مکالمہ ہو۔ شادی کو صرف سماجی فریضہ نہیں بلکہ ایک جذباتی اور روحانی معاہدہ سمجھا جائے۔ والدین اپنے بچوں کی رائے کو عزت دیں، اور نوجوان بھی اپنے بزرگوں کی خواہشات اور مشوروں کو اہمیت دیں اور خلوصِ نیت سے صرف شریکِ حیات نہیں، بلکہ قدروں کے امین ، دکھ سکھ کے ساتھی کی تلاش کو مقصد بنائیں۔ صرف خوبصورتی ،تعلیم، پیشہ ،دولت یا بیرونی شہریت نہیں بلکہ اچھی زندگی کیلئے کردار، اعتماد، ہم آہنگی اور دینی فہم و سماجی اقدار بھی ضروری ہیں۔ شادی ماضی میں صرف دو افراد کا نہیں، دو خاندانوں، دو سوچوں اور دو نسلوں کا ملاپ ہوتا تھا ، ان روایات کو نئے تقاضوں کےمطابق ہم نے وقت پر نئی نسل کو سمجھانے اور سننے کا عمل نہ اپنایا تو نہ صرف رشتے کمزور ہوں گے، بلکہ خاندانی نظام کا شیرازہ بھی بکھر جائے گا۔یہ وقت ہے خود احتسابی کا۔ ہمیں بحیثیت والدین، اساتذہ، کمیونٹی لیڈر اور خود نوجوان نسل سب کو مل کر نئی راہیں، نئے انداز اور ذرائع تلاش کرنا ہوں گے، اپنی ترجیحات کی حدود میں رہتے ہوئے نئے زمانے کےمطابق ڈھالنا ہو گا۔
( صاحبِ مضمون سابق وزیر اطلاعات پنجاب ہیں)