یہ 25جولائی 2025ء کی دوپہر کا وہ لمحہ ہے، جب اسلام آباد کے آسمان پر بادل آنکھ مچولی میں مصروف تھے۔ میں پطرس بخاری روڈ سے منسٹرز انکلیو یعنی وزراء کالونی کی طرف جس شخصیت سے ملنےجا رہا تھا اس نے 1985ء میں بطور وفاقی وزیر ہائوسنگ و تعمیرات وفاقی وزراء کیلئے رہائشی اسکیم کا منصوبہ اس وقت کے وزیراعظم محمد خان جونیجو کو پیش کیا۔ وزیراعظم نے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ یہ اسکیم غیر محفوظ ہے کیونکہ اگر کسی دشمن نےاس کالونی پر بم پھینک دیا تو ہمارے وزراء کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔جس پراس وزیر یوسف رضا گیلانی نے کہااس کالونی کے ارد گرد کئی اہم عمارات ہیں۔جن میں کشمیر ہاؤس، سرحد ہاؤس، سندھ ہاؤس، بلوچستان ہائوس اور ہالیڈے ان ( موجودہ میریٹ) شامل ہیں۔ جب میں منسٹرزانکلیو داخل ہواتو سامنے بورڈ دیکھ کر معلوم ہوا کہ اس کالونی کا سنگ بنیاد بھی سید یوسف رضا گیلانی نےرکھا۔میں جیسے ہی چیئرمین سینٹ ہاؤس پہنچا،تو میزبان سے مرکزی دروازے پر ملاقات ہوئی۔ وہ کہنے لگے میں آپ کی آج اپنے ہاؤس کے ایک شاندار اور ذہین سینیٹر سے ملاقات کرواتا ہوں۔جیسے ہی ڈرائنگ روم میں داخل ہوا تو سامنے سید سرمد علی موجود تھے ۔ان سے اچانک ملاقات کسی سرپرائز سے کم نہ تھی۔گفتگو کا آغاز ہوا تو میں نے کہا کہ اب ہمارے ہاں جو صحافت ہو رہی ہے۔اس پر صرف آپ کا ادارہ ہی پورا اتر رہا ہے۔ یعنی تحقیقاتی رپورٹنگ،تصدیق کرنے کے بعد کسی بھی خبر کی اشاعت،شاندار ادارتی صفحہ اور خوبصورت ایڈیشنز ۔
اس کے ساتھ ہی میں نے یوسف رضا گیلانی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا،یہ خانوادہ اگرچہ سیاست کا شہسوار ہے۔لیکن ملتان کے حوالے سے اس خاندان نے تعلیم، سیاست، ثقافت اور انجمن اسلامیہ کے ذریعے شہر کے کلچر کو جس طرح اجاگر کیا۔وہ اپنی مثال آپ ہے۔دور کیوں جائیں پاکستان بننے سے پہلے انجمن اسلامیہ نے جہاں بے شمار تعلیمی اداروں کا سنگ بنیاد رکھا۔وہاں انہوں نے شہر میں اتحاد بین المسلمین کے تحت محرم الحرام ،ربیع الاول اور دیگر مذہبی تہواروں پر جو کوششیں کیں وہ گیلانی خاندان کا ہی خاصہ ہیں۔
میری یہ گفتگو سننے کے بعد چیئرمین سینٹ سید یوسف گیلانی نے کہا،ہمارے خاندان نے انجمن اسلامیہ کے ذریعے جہاں اسکولوں اور کالجز کی ایک پوری سیریز کو قائم کیا۔وہاں میرے قریبی بزرگ سید تنویر الحسن گیلانی نے ایک طرف گیلانی لا کالج کا سنگ بنیاد رکھا تو دوسری طرف ملتان میں ابتدائی جدید ترین انگریزی تعلیم کیلئے شوکت حسین گیلانی کنڈر گارڈن اسکول قائم کیا۔سید تنویر الحسن گیلانی کا ذکر آتے ہی محفل میں موجود سابق رکن قومی اسمبلی پیر اسلم بودلہ نے کہاملتان میں گیلانی خاندان اور میاں چنوں میں ہمارا خاندان تعلیم کے فروغ کے لیے پاکستان بننے سے پہلے سے کام کر رہا ہے۔ اسی نشست میں مجھے معلوم ہوا کہ تنویر الحسن گیلانی شدید علیل ہیں اورپاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز اسلام آباد میں داخل ہیں۔ ابھی مجھے اسلام آباد سے آئے ہوئے ایک ہفتہ بھی نہیں ہوا تھاکہ31جولائی 2025کی صبح سابق وفاقی وزیر سید تنویرا لحسن گیلانی کے انتقال کی خبر آگئی۔ وہ اگرچہ ایک عرصے سے سیاست میں سرگرم نہیں تھے۔لیکن ایک زمانے میں بادشاہ گرتو رہے تھے۔اب ایک عرصے سے انجمن اسلامیہ کے معاملات کو دیکھ رہے تھے۔جس کا سال کا سب سے بڑا ایونٹ عید میلاد النبی کے حوالے سے ملتان کا مرکزی جلوس ہوا کرتا تھا۔انجمن اسلامیہ کے اس جلوس میں ماضی میں سابق گورنر جنرل غلام محمد، خواجہ ناظم الدین ،سابق وزراء اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان، آئی آئی چندریگر، حسین شہید سہروردی، ملک فیروز خان نون ،سابق سپیکر قومی اسمبلی فضل قادر چوہدری شامل ہوتے رہے ۔سید تنویر الحسن گیلانی نے پہلا انتخاب 1985 میں قومی اسمبلی کی نشست 117 پر لڑا۔وہ شیخ رشید کے مقابلے میں 1400 ووٹوں سے ہار گئے۔1990 کے انتخابات میں آئی جی آئی کی طرف سے ملک مختار احمد اعوان کو شکست دے کر ایم این اے منتخب ہوئے اور نواز شریف کی کابینہ کا حصہ بن گئے ۔1993 کے انتخابات میں پیپلزپارٹی کی طرف سے حصہ لیااور شیخ محمد طاہر رشید سے ہار گئے۔1997 میں بھی شیخ طاہر رشید نے ان کو شکست دی ۔2002 کے انتخابات میں رانا محمود الحسن جن کا تعلق نون لیگ سے تھا انہوں نے قاف لیگ کے امیدوار تنویر الحسن گیلانی کو شکست سے دو چار کیا۔مسلسل تین شکستوں کے بعد عملی سیاست سے لا تعلق ہوگئے۔ لیکن شہر کی ہر غمی خوشی میں برابر شریک ہوتے رہے۔ زندگی کے آخری دو عشرے انہوں نے انجمن اسلامیہ کی محبت میں گزارے۔ اس سال عید میلاد النبی کے 15 سو سال مکمل ہونے کی خوشی میں ان کا جوش و خروش دیدنی تھا۔انہوں نے اپنے ساتھیوں کو اس تاریخی موقع کو یادگار بنانے کے لیے خاص انتظامات کی ہدایت کرنا شروع کر دی تھی کہ موت نے ان کا راستہ دیکھ لیا۔وہ ہر سال ربیع الاول کے جلوس کی تیاری کیلئے صفرالمظفر میں انتظامی کمیٹی کے اجلاس طلب کر لیا کرتے تھے۔ لیکن اس سال انکی حاضری اس دربار میں لکھی تھی۔جس کا جشن وہ 12ربیع الاول کو پورے اہتمام واحترام سے منایا کرتے تھے۔
یکم اگست 2025ءکو جب ان کا جسد خاکی نشتر ہسپتال کے ہاسٹلز کے سامنے وسیع وعریض میدان میں لایا گیا۔تو ہزاروں سوگواران نے انہیں نم آنکھوں سے رخصت کیا۔اور میں چشم تصور میں جمعہ 25 جولائی 2025ءکی اس دوپہر کو یاد کر رہا تھا۔ جب سید یوسف رضا گیلانی کے گھر سینیٹر سید سرمد علی اور سابق رکن قومی اسمبلی اسلم بودلہ ان کو یاد کر رہے تھے۔لیکن ہمیں یہ معلوم نہ تھا کہ جمعہ یکم اگست 2025ءکو بادلوں کے سائے میں انہیں رخصت کرنا ہوگاکہ ان کی رخصتی سیاست، ثقافت و علم کے پورے عہد کی رخصتی تھی۔