• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کا شمار دنیا کے بڑے چینی پیدا کرنے والے ممالک میں ہوتا ہے، لیکن اس کے باوجود چینی کا بحران ایک ایسا دائمی مسئلہ بن چکا ہے جو ہر سال کسی نہ کسی شکل میں عوام کو متاثر کرتا ہے۔ قیمتوں میں بے قاعدہ اتار چڑھاؤ، مصنوعی قلت، اور عام آدمی کی بے چینی — یہ سب اس بحران کی نمایاں علامات ہیں۔ اس مسئلے کی جڑ کئی دہائیوں سے جاری بدانتظامی، ریاستی نگرانی کا فقدان اور شوگر ملز کے طاقتور کارٹیل کا وہ کردار ہے، جو بار بار منڈی کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتا ہے۔ پاکستان کی شوگر انڈسٹری بڑی حد تک غیر دستاویزی معیشت میں کام کرتی ہے، جہاں پیداوار اور ذخائر سے متعلق اعداد و شمار اکثر غیر معتبر اور غیر مصدقہ ہوتے ہیں، جس کی بڑی وجہ ادارہ جاتی غفلت — بالخصوص ادارہ شماریات کی ناکامی ہے۔ اس ناقص نظام کی وجہ سے کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ بظاہر چینی کے وافر ذخائر کو برآمد کر دیا گیا، اور بعد ازاں جب مقامی قلت ظاہر ہوئی تو مہنگے داموں درآمد کرنا پڑا۔ بروقت اور حقیقی ڈیٹا کی عدم موجودگی میں ذخیرہ اندوز عناصر اس غیر یقینی صورتحال سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں اور قیمتوں کو بلا روک ٹوک اپنی مرضی سے بڑھا دیتے ہیں گزشتہ حکومتوں نے چینی کی قیمتوں پر قابو پانے کے لیے کئی اقدامات کیے، لیکن یہ زیادہ تر غیر سنجیدہ، وقتی اور کمزور نوعیت کے رہے۔ مستقل پالیسی کا فقدان اور قانون پر ناقص عملدرآمد نے بحران کو مزید سنگین بنا دیا۔ چینی بحران کا حل وقتی اقدامات میں نہیں بلکہ ایک پائیدار، شفاف اور ڈیٹا پر مبنی ریگولیٹری فریم ورک میں پوشیدہ ہے، جو منڈی میں طلب و رسد کا درست اندازہ لگا کر پالیسی مرتب کرے، منافع خوری کو روکے، اور کاشتکار، صنعت کار اور صارف — تینوں کے مفادات میں توازن قائم کرے۔ نیم ریاستی و نیم مارکیٹ ماڈل —(Semi state-semi market model) ایک قابلِ عمل حل ہے1970 کی دہائی میں پنجاب حکومت نے ایک ایسا نظام متعارف کروایا تھا، جو 1950 کے شوگر فیکٹریز کنٹرول ایکٹ کے تحت کامیابی سے چلایا گیا۔ اس ماڈل میں گنے کی تقسیم، ملوں کے لیے مخصوص زون، اور اضافی چینی کی حکومتی خریداری جیسے اقدامات شامل تھے۔ موجودہ حالات میں اسی طرز کا ایک جدید ورژن اپنایا جا سکتا ہے۔

تجویز کردہ طریقہ کار: حکومت کی سرپرستی میں چینی کی خرید و فروخت کا نظام۔حکومتِ پنجاب (یا کوئی بھی صوبائی حکومت) تجارتی بینکوں سے کریڈٹ لمٹس حاصل کر سکتی ہے۔ اس وقت بینکاری نظام میں اضافی لیکویڈیٹی موجود ہے، جو اس قسم کی مالی معاونت کو قابلِ عمل بناتی ہے۔ چینی کی خریداری براہِ راست شوگر ملز سے نقد ادائیگیوں کے ذریعے کی جائے گی، جس کے لیے مذکورہ بینک کریڈٹ کا استعمال کیا جائے گا۔ اس سے فوری طور پر شوگر ملز کا مالی بوجھ کم ہوگا اور وہ اپنے بینکوں سے لیے گئے بقایا جات کو ایڈجسٹ کر سکیں گی، جس سے ان کے مالی اخراجات میں نمایاں کمی آئے گی۔ خریدی گئی چینی کا ذخیرہ شوگر ملز ہی کے گوداموں میں رکھا جائے گا، جنہیں محکمہ خوراک کی نگرانی میں مقفل کیا جائے گا۔ اس ذخیرہ اندوزی پر شوگر ملز کو کرایہ ادا کیا جائے گا تاکہ نقل و حمل میں رکاوٹ نہ آئے۔ حکومت اس چینی کو منظور شدہ ڈیلرز کے نیٹ ورک کے ذریعے فروخت کرے گی۔ اس کی خوردہ قیمت شفاف طریقے سے درج ذیل عوامل کو مدنظر رکھ کر مقرر کی جائے گی: • شوگر ملز سے خریداری کی لاگت • بینکوں کو ادا کیا گیا مارک اپ / سود • گوداموں کا کرایہ • معمولی انتظامی اخراجات۔ یہ نظام چینی کی مسلسل اور ضرورت کے مطابق فراہمی کو یقینی بنائے گا، جس سے ذخیرہ اندوزی اور مصنوعی مہنگائی کی حوصلہ شکنی ہو گی۔ جب چینی کے ذخائر اسٹرٹیجک ضرورت سے زائد ہوں، تو حکومت ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان (TCP) کے ذریعے اوپن ٹینڈر کے ذریعہ چینی برآمد کر سکتی ہے — اور اس عمل میں مقامی برآمد کنندگان کو ترجیح دی جائے۔ دوسری طرف، اگر قلت کا خدشہ ہو تو بین الاقوامی ٹینڈرز بر وقت جاری کیے جا سکتے ہیں تاکہ چینی کی بروقت درآمد کی جا سکے اور نئے کرشنگ سیزن کے آغاز تک ملکی ضروریات میں استحکام قائم رکھا جا سکے۔ حکومت کے پاس ایک اور سادہ مگر تخلیقی آپشن یہ بھی ہے کہ حکومت، بینک، اور شوگر مل مالکان کے درمیان ایک قانونی سہ فریقی معاہدہ ترتیب دیا جائے، جس میں قرض اور ذخائر کا باہمی تبادلہ عمل میں لایا جا سکتا ہے۔ چینی بحران کے تناظر میں ایک اور سنگین مسئلہ وہ احتجاجی تحریکیں ہیں جو گنے کے کاشتکاروں کی جانب سے وقتاً فوقتاً سامنے آتی ہیں۔ شوگر مل مالکان کی طرف سے ان محنت کش کسانوں کو ان کی واجب الادا رقوم کی عدم ادائیگی نہ صرف زرعی معیشت کو متاثر کرتی ہے بلکہ بعض اوقات یہ صورتحال شدید احتجاج، سڑکوں کی بندش اور امن و امان کی بگڑتی صورت اختیار کر لیتی ہے، جو حکومت کے لیے ایک نازک چیلنج بن جاتا ہے۔ اگر حکومت قرض اور ذخائر کا باہمی تبادلےکا قابل عمل نظام متعارف کروا دے تو شوگر مل مالکان کو ان ادائیگیوں سے راہِ فرار اختیار کرنے کا کوئی موقع نہ ملے گا۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ مجوزہ سہ فریقی معاہدے میں ایک واضح اور لازمی شق شامل کرے، جس کے تحت کاشتکاروں کو انکے واجبات کی بروقت ادائیگی یقینی بنائی جائے۔ اس اقدام سے نہ صرف کسانوں کا اعتماد بحال ہو گا بلکہ چینی بحران سے جڑے دیگر پیچیدہ مسائل کے حل میں بھی پیش رفت ممکن ہو سکے گی۔ نتیجہ: یہ تجویز کردہ ماڈل عوام کو مناسب قیمت پر چینی کی دستیابی یقینی بناتا ہے، • حکومت کو قیمتوں پر کنٹرول اور پالیسی تسلسل کی سہولت دیتا ہے اور صنعتکاروں کو مالی سہولت، خریدار اور منافع مہیا کرتا ہے۔ پاکستان میں چینی کا بحران دراصل پیداوار کا نہیں بلکہ پالیسی، نیت اور نفاذ کا بحران ہے۔ اگر ریاست سنجیدہ ہو، پالیسیوں میں تسلسل لائے، اور فیصلہ سازی میں شفافیت اختیار کرے تو یہ مسئلہ مستقل بنیادوں پر حل ہو سکتا ہے۔

تازہ ترین