کچھ دن قبل اسرائیل نے شام پر شدید بمباری اور حملے کئے۔ ان اسرائیلی حملوں سے پہلے شام کی حکومت اور جنوبی شام میں موجود Druze کمیونٹی، جو کہ ایک اقلیتی مذہبی گروہ ہے کے درمیان جھڑپیں تیز ہورہی تھیں۔ Druze کی بڑی تعداد اسرائیل میں بھی موجود ہے اور اسرائیل نے بظاہر اسی گروہ کی خاطر ’’انسانی حقوق‘‘ کے تحفظ کے نام پر نہ صرف جنوبی شام میں بمباری کی بلکہ دمشق پر بھی بمباری شروع کردی۔ اطلاعات کے مطابق شام کے عسکری ہیڈ کوارٹر کو بھی اسرائیل نے بمباری میں خاکسترکردیاہے۔
گزشتہ کئی دہائیوں سے بشارالاسدکی شامی حکومت اسرائیل اور امریکہ کو اس خطے میں گویا کانٹے کی طرح چبھ رہی تھی۔ مصر اردن ترکی اور دیگر ممالک نے اسرائیل کیساتھ تعلقات ٹھیک کرلئے تھے۔ عراق اور لیبیا کو بمباری کرکے تباہ کر دیا گیا۔ لیکن تمام پابندیوں اور اندرونی تضادات اورسازشوں کے باوجود شام کی حکومت اسرائیل مخالف رہی۔ ایسے میں حکومتی مخالفین کو کھل کر امریکہ نے مدد دی اور جولانی، جو ایک وقت میں امریکی نظروں میں اس خطے کا داعش کا سب سے بڑا خطرناک دہشت گرد سمجھا جاتا تھا، پھر دیکھتے ہی دیکھتے امریکہ کا منظور نظر ہوگیا اور امریکہ ہی کی سرپرستی میں شام کا والی اور امیر بن گیا۔ حیرت کی بات یہ ہےکہ اب اس کے دور حکومت میں بھی یہ بمباری کا سلسلہ کیوں نہیں رک رہا؟ درحقیقت اسرائیل اور امریکہ کیلئے مشرق وسطی میں کوئی نظریہ اہمیت کا حامل نہیں ہے۔ وہ صرف اور صرف ایک بکھرا ہوا، شکست خوردہ معاشرہ دیکھنا چاہتےہیں جس کو بیرونی قوتیں کنٹرول کرسکیں۔ اس کیلئے 1982ء میں Oded Yinon کی طرف سے لکھے گئے ایک آرٹیکل میں دیئے گئے پلان کو سمجھنا ضروری ہے جسے Yinon Plan بھی کہا جاتا ہے۔ اس میں کہا گیا تھا کہ مشرقی وسطیٰ کو کنٹرول کرنے کا بہترین طریقہ وہاں ہر موجود مذہبی، قومی، قبائلی، فرقہ وارانہ اور لسانی تقسیم کو استعمال کرنا ہے۔ اس تقسیم کا ہدف ریاست اور معاشروں کی مکمل تباہی ہونی چاہئے تاکہ اسرائیل اور مغرب کا خطے پر تسلط برقرار رہ سکے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ اس آرٹیکل میں یہ بھی تسلیم کیا گیا کہ تیسری دنیا کی یکجہتی اور سوشلسٹ عالمگیریت مغرب کے لئے بہت بڑا خطرہ بن چکے ہیں۔ انکو شکست دینے کے لئے عرب دنیا میں شناخت کی بنیاد پر تقسیم لازمی ہے۔ امریکہ ماضی میں یہ فارمولا ہر مسلمان ملک کیخلاف آزما چکا ہے جس طرح لبنان کی خانہ جنگی کے دوران اسرائیل نے تمام مذہبی گروہوں کو مہارت سے ایک دوسرے کے خلاف استعمال کیا۔ امریکی صدر جارج بش کے اردگرد دانشوروں نے Yinon Plan کو بہت سنجیدہ لیا۔
عراق پر بمباری اور اسے ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کے لئے وہاں پر پہلے کردوں کو استعمال کیا گیا اور پھر فرقہ وارانہ فسادات کروائے گئے۔ عراق، جو ایک وقت میں عرب دنیا کا فخر تھا، داعش سمیت مختلف مسلح گروہوں کا مرکز بن گیا۔ اسی طرح یمن، لیبیا، اور پھر شام کو تقسیم کیا۔ اس میں کرد گروہوں کا کردار شدید منفی تھا جنہوں نے امریکی مدد کے ذریعے شام کو تقسیم بھی کیا اور وہاں پر امریکہ کو فوجی اڈے دے کر ملکی معدنیات اور تیل بھی سامراج کے حوالے کردیا۔
جولانی کی حکومت کو اکثر لوگوں نے اسرائیلی ایجنٹ کہا حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل کیلئے کوئی بھی شخص، گروہ یا حکومت ایک وقتی مہرے سے زیادہ اہم نہیں۔ انکا مقصد پورے خطے کو غزہ میں تبدیل کرنا ہے تاکہ مزاحمت کی گنجائش ہی ختم ہوجائے۔ یاد رہے کہ جس طرح ابھی Druze کے نام پر شام پر بمباری ہورہی ہے، پچھلے ماہ عورتوں کے حقوق کے نام پر ایران پر بمباری کی گئی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ دشمن ایک واضح حکمت عملی کے ساتھ پوری مسلم دنیا کو تباہ کررہا ہے لیکن ہمارے لوگ کبھی اس لڑائی میں اپنے فرقے کو تلاش کررہے ہوتے ہیں یا پھر انسانی حقوق کا واویلا شروع کردیتے ہیں۔ دونوں صورتوں میں ہم اسرائیل کے کھیل کو سمجھنے میں ناکام رہتے ہیں۔
سامراج کی اس حکمت عملی کے بعد یہ بات طے ہے کہ جو بھی تحریک اپنی شناخت سے آگے نہیں بڑھے گی اور کھل کر امریکی سامراج کی مخالفت نہیں کرے گی، وہ دانستہ یا نادانستہ طور پر سامراج کے ساتھ کھڑی ہوگی۔ کردوں کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ جرمن فلسفی ہیگل اسے cunning of history کہتا تھا کہ لوگ اپنے شعور میں انسانی حقوق یا کسی بڑے مقصد کے لئے لڑرہے ہوتے ہیں مگرچونکہ وہ تاریخ کی سمت اور عالمی صورتحال کو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں، اس لئے ان کی حیثیت بڑے کھیل میں معمولی پیادے کی ہوتی ہے۔ اس لئے اپنی چھوٹی شناخت کے اردگرد سیاست کرنے کے بجائے خطے کے تمام مظلوموں کو انصاف کے عالمگیر اصولوں کے تحت جوڑنا وقت کی ضرورت ہے۔ ورنہ ایک طرف ہمارے پاس ریاستی جبر رہ جائے گا اور دوسری جانب لسانی دہشت گردی کے اندوہناک واقعات ہی رہ جائیں گے۔ یقینی طور پرتاریخ نے ہم پر حالات کا صحیح جائزہ لینے کی ذمہ داری سونپی ہے تاکہ استعماری قوتوں کی گہری سازشوں کو جلد ناکام بناکر ہم درست سمت کاتعین کرتےہوئے اپنےقدموں پر کھڑے ہوں اور اپنے فیصلےعوامی امنگوں، دیانتداری، ایمانداری اور جراتمندی کے ساتھ کرسکیں۔