• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

9 مئی 2023ءکو پاکستان کی تاریخ کا وہ سیاہ دن شمار کیا جائے گا جب ایک سیاسی جماعت نے احتجاج کے نام پر ریاستی وجود کو للکارا۔ یہ وہ دن تھا جب پاکستان کے دفاعی اثاثے، فوجی تنصیبات، اور شہداء کی یادگاریں ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت نشانہ بنائی گئیں۔ اس دن نہ صرف قانون کی دھجیاں اڑائی گئیں بلکہ دشمن کے بیانیے کو تقویت دی گئی۔ آج دو سال بعد جب ہم اس واقعے کا جائزہ لیتے ہیں تو ایک حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ یہ محض جذباتی ہجوم کا کوئی خود ساختہ اقدام نہیں تھا بلکہ ایک سیاسی جماعت کی قیادت، خاص طور پر عمران خان کے ذہن کی پیداوار تھی، جس نے ذاتی گرفتاری کو ریاست سے بدلہ لینے کے جواز میں بدل دیا۔تحریک انصاف جو خود کو "واحد محبِ وطن" جماعت قرار دیتی رہی ہے، 9 مئی کو اس کا اصلی چہرہ کھل کر سامنے آ گیا۔ لاہور میں کور کمانڈر ہاؤس کو آگ لگانا، میانوالی اور مردان میں ایئربیسز پر حملے، راولپنڈی میں جنرل ہیڈ کوارٹرز (GHQ) کے دروازے پر چڑھائی، اور سب سے بڑھ کر شہداء کی یادگاروں کی بے حرمتی، ایسے واقعات نہیں جنہیں چند افراد کی "جذباتی لغزش" کہہ کر فراموش کیا جا سکے۔ یہ ریاستی ڈھانچے کو کمزور کرنے کی ایک شعوری کوشش تھی، جو صرف پاکستان کے دشمن ہی کر سکتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہی سوچ ہندوستان کے میڈیا، حکومتی ترجمانوں اور خفیہ اداروں کے بیانات میں بھی برسوں سے گونجتی رہی ہے۔بھارتی حکام اور میڈیا طویل عرصے سے پاکستان کی افواج کو بدنام کرنے، انہیں عوام سے کاٹنے، اور دفاعی اداروں کے خلاف عوامی نفرت کو ابھارنے کی کوشش کرتے آ رہے ہیں۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ پی ٹی آئی کی احتجاجی حکمت عملی اور بھارتی پالیسی سازوں کی سوچ میں اتنی مشابہت ہے؟اس واقعے کے بعد بھارتی میڈیا نے جس جوش و خروش سے اس کو کور کیا، اور جس طرح عمران خان کی گرفتاری کو "فوج کے خلاف بغاوت" کا رنگ دیا، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں یہ منظرنامہ کتنا مرغوب تھا۔ بھارت کے معروف ٹی وی اینکرز نے اسے "پاکستانی عوام کی فوج سے بغاوت" قرار دیا، کچھ نے تو یہاں تک کہا کہ "بالآخر عمران خان نے پاکستان کے فوجی تسلط کو چیلنج کر دیا"۔ سوال یہ ہے کہ عمران خان کا بیانیہ اور بھارت کا خواب ایک ساتھ پورے کیسے ہو سکتے ہیں؟ کیا ایک پاکستانی رہنما اتنا بے پروا ہو سکتا ہے کہ اسے اس بات کا اندازہ نہ ہو کہ اس کی تحریک کس سمت میں جا رہی ہے؟

عمران خان کا سیاسی سفر ہمیشہ اداروں کے ساتھ ٹکراؤ، الزام تراشی اور محاذ آرائی پر مبنی رہا ہے۔ ابتدا میں جب اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی حاصل تھی تو وہ خاموش رہے، بلکہ اُنہیں "ہم ایک پیج پر ہیں" جیسے جملوں سے سراہتے رہے۔ لیکن جونہی سیاسی حالات نے پلٹا کھایا، وہی فوج جو کبھی نجات دہندہ تھی، اچانک اُن کی نظر میں "غدار، سازشی اور کرپٹ" بن گئی۔ یہ رویہ نہ صرف غیر سنجیدہ تھا بلکہ خطرناک بھی، کیونکہ ایک لیڈر جب ذاتی مفادات کو ریاستی مفاد پر ترجیح دیتا ہے، تو وہ صرف اداروں کو ہی نہیں بلکہ قوم کو بھی تقسیم کرتا ہے۔پاکستان جیسے ملک میں جہاں فوجی ادارے نہ صرف دفاع بلکہ قدرتی آفات، انسداد دہشت گردی، اور قومی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، اُنہیں نشانہ بنانا کسی طور بھی سیاسی احتجاج نہیں کہلا سکتا۔ بلکہ یہ وہی عمل ہے جسے پاکستان کے دشمن چاہتے ہیں۔ اگر 9 مئی کے واقعات کو معمولی احتجاج قرار دیا جائے تو پھر ہمیں ہر دہشت گردی کے واقعے کو بھی محض "ردعمل" کہنا پڑے گا۔پی ٹی آئی نے 9 مئی کو ریاست پر حملہ کر کے نہ صرف قانون توڑا بلکہ ایک خطرناک مثال قائم کی۔ آج بھی سوشل میڈیا پر کئی ایسے اکاؤنٹس متحرک ہیں جو اسی بیانیے کو زندہ رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ "فوج کو سبق سکھانا تھا"، "GHQ کو عوامی طاقت دکھانی تھی"۔ یہ وہ سوچ ہے جو براہ راست ریاستِ پاکستان کے نظریے سے متصادم ہے۔ کسی بھی جمہوری معاشرے میں سیاسی جماعتیں اختلاف رائے رکھ سکتی ہیں، تنقید کر سکتی ہیں، مگر ریاستی اداروں کو دشمن سمجھ لینا سیاسی بددیانتی اور جمہوری اصولوں سے انحراف ہے۔

یہ امر بھی قابل غور ہے کہ 9 مئی کے واقعات کے بعد کئی پی ٹی آئی رہنماؤں نے جماعت کو خیرباد کہہ دیا۔ کچھ نے فوراً علیحدگی اختیار کی، کچھ نے وقت لیا، اور کچھ اب بھی عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں لیکن اندرونی اختلافات کا شکار ہیں۔ اس تمام تر صورتحال میں ایک ہی بات واضح ہوتی ہے کہ پی ٹی آئی ایک ایسی قیادت کے زیرِ اثر رہی جس نے پارٹی کو سیاسی ناپختگی اور ریاست دشمنی کی سرحد تک لا کھڑا کیا۔اب وقت آ گیا ہے کہ عمران خان اور ان کی جماعت کو محض ایک سیاسی مسئلہ سمجھنے کے بجائے قومی سلامتی کے تناظر میں پرکھا جائے۔ یہ صرف اقتدار کی کشمکش نہیں بلکہ ریاستی بقا کا مسئلہ ہے۔ کوئی بھی جماعت یا لیڈر اگر پاکستان کے دفاعی اداروں کو کمزور کرنے کی کوشش کرے، دشمن کے بیانیے کو فروغ دے، اور ریاستی رٹ کو چیلنج کرے، تو وہ محض اپوزیشن نہیں بلکہ ایک خطرہ ہے، جس سے نبٹنا وقت کی ضرورت ہے۔9 مئی کو تنصیبات جلانےاور یادگارشہداء کی بے حرمتی کرنے والوںاور دشمن کے بیانیے کیلئے نرم گوشہ رکھنے والوں کو معاف کرنا دراصل مستقبل کے سانحات کو دعوت دینا ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جب ریاست کو مکمل یکجہتی، عزم اور ادارہ جاتی ہم آہنگی کے ساتھ دہشتگردی کے اس نئے سیاسی چہرے کا مقابلہ کرنا ہو گا۔

تازہ ترین