سات دہائیوں کی قیادت اُس روز اُس تاریخی خالق دینا ہال میں موجود تھی صحافیوں کی سب سے بڑی تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کی پلاٹینم جوبلی تقریب میں شرکت کیلئے1960ءسے لے کر آج تک ہر تحریک کے کردار وہاں موجود تھے۔ تصور کریں جس طرح 90سالہ حسین نقی دیگر بزرگ صحافیوں جی این مغل، حبیب خان غوری، زاہد حسین زیدی، عابد علی سعید کئی سیڑھیاں چڑھ کر آرہے تھے تو میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔تمام تر کمزوریوں، خامیوں اور تقسیم کے باوجود تحریک کا وہ جذبہ آج بھی قائم ہے۔ کوئی 1948ءکی تحریک کا ذکر کررہا تھا تو کوئی60 ء، 70ءکی اور2007ء کی تحریک کا ۔ اُس ہال میں صحافیوں کے ساتھ، سیاسی کارکن، وکیل ، ہاری اور وہ خواتین صحافی بھی موجود تھیں جنہوں نے بھوک ہڑتال اور گرفتاریاں دی تھیں۔
یقینی طور پر وہ ایک یادگارتقریب تھی۔ ہال دوستوں سے بھرا ہوا تھا ۔ٹریڈ یونین، سول سوسائٹی اور دیگر شعبوں سے تعلّق رکھنے والے افراد شریک تھے۔ کئی دوست برسوں بعد ملے تھے۔ اپنی پیٹھ پر کوڑے کھانے والے ناصر زیدی بڑے عرصہ بعد غوری صاحب سے ملے، اسی طرح زاہد زیدی جو اپنے وقت کے نامور فوٹو گرافر تھے اور 78-1977ءکی صحافی تحریک کو کیمرے کی آنکھ سے کور بھی کیا اور اُسے آج تک محفوظ بھی کیا اپنی بیماری کی وجہ سے کم آتے ہیں مگر اُس دِن وہ نہ صرف آئے بلکہ اپنے ساتھ USB بھی لے کر آئے مگر وقت کی تنگی کے باعث ہم دیکھ نہ سکے۔ ہمارے صوبۂ سندھ اور خاص طور پر حیدرآباد یونین آف جرنلسٹس کا ایک بڑا نام جی این مغل صاحب حیدرآباد سے تشریف لائے۔ ہمارے دو ساتھی اُن کو سہارادے کر ہال میں لائے۔ سیاسی کارکنوں میں مسرور احسن جنہیں ’استاد‘ بھی کہا جاتا ہے اور جنہوں نے 1978ء کی صحافتی تحریک میں صحافیوں کو ’قبروں‘ تک میں لٹا کر وقت سے پہلے گرفتاری دینے سے بچایا، وہاں موجود تھے۔ اسی طرح ضیاء اعوان جو آج ایک بڑے وکیل ہیں مگر اُس تحریک میں وہ بھی جیل میں تھے، خاص طور پر اِس تقریب میں شرکت کیلئے آئے۔ ہاری کمیٹی کے کچھ دوست جنہوں نے صحافیوں کے ساتھ جیلیں کاٹیں اپنے پُرانے جیل کے ساتھیوں سے مل کر بہت خوش تھے۔
خواتین صحافیوں میں محترمہ شہنازاحد اور مہناز رحمٰن صاحبہ جنہوں نے دیگر خواتین صحافیوں کے ساتھ کراچی پریس کلب میں بھوک ہڑتال کی 1978ء میں اپنے اپنے خیالات اور تجربات شیئر کئے۔ کئی دیگر خواتین صحافی بھی جن میں جنگ کی رضیہ فرید بھی شامل تھیں خاموشی سے پیچھے بیٹھی پوری تقریب میں موجود رہیں۔ مہنازجو ہمارے صحافتی رہنما احفاظ الرحمان مرحوم کی اہلیہ ہیں خود بھی اپنے زمانے میں امن یونین کی صدر رہیں اور کراچی یونین آف جرنلسٹس کی عہدیدار بھی۔ کچھ اپنی بیماری کے باعث شریک نہ ہوسکیں جن میں اسلام آباد سے تعلّق رکھنے والی فریدہ حفیظ جنکے جسم میں آج بھی وہ گولی موجود ہے جو صحافتی جدوجہد میں اُن کو لگی۔ اسی طرح پی ایف یو جے کی ابتک واحدخاتون سیکرٹری جنرل فوزیہ شاہد بھی اپنی اور شوہر کی بیماری کے باعث شرکت نہ کرسکیں البتہ انہوں نے اپنا ویڈیو پیغام ضرور بھیجا۔
غرض یہ کہ اُس تاریخی ہال میں جہاں قیام پاکستان سے پہلے مولانا محمد علی جوہر ،شوکت علی اور دیگر حُریت پسندوں کا مقدمہ چلا تھا وہیں 2؍اگست ، 1950میں پی ایف یو جے کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ ہمارے ایک اور بُزرگ صحافی اپنے زمانے میں بی بی سی کی مؤثر آواز علی احمد خان جو آجکل ایبٹ آباد ،میں رہتے ہیں آنکھوں کے آپریشن کے باعث شریک نہ ہوسکے۔ تاہم انہوں نے اُس موقع پر خصوصی طور پر اپنے پیغام میں پی ایف یو جے کو خراج تحسین پیش کیا۔ اُن کا یہ پیغام خصوصی’مجلہ‘ میں شائع ہوا جو سینئر صحافی اور کے یو جے کی مجلسِ عاملہ کے رُکن وارث رضا نے تیار کیا۔ خان صاحب لکھتے ہیں۔’’مجھے اِن دنوں پر آج بھی فخر ہے کہ جب منہاج برنا کی قیادت میں ہم سب ساتھی ہر دم صحافتی حقوق اور آزادیٔ صحافت کے ساتھ ساتھ شہری آزادیوں کے حقوق کی جنگ بھی ایک جذبہ کے ساتھ ہاتھ میں ہاتھ ڈالے فوجی اور سول آمروں کے خلاف لڑتے۔ نہ ہمیں نوکری جانے کی فکر تھی نہ حکمرانوں کے سامنے کلمۂِ حق کہنے کا خوف‘‘۔
اسی طرح حسین نقی اور غوری صاحب نے اپنی اپنی تقاریر میں پی ایف یو جے کی تاریخی جدوجہد کا ذکر کیا جسکے دوران فوجی عدالتوںسےسزائیں اور کوڑوں کے ساتھ معاشی مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑا۔نقی صاحب نے ایک بنیادی بات کی جو شاید صرف پی ایف یو جے کی قیادت کیلئے ہی نہیں بلکہ سیاسی قیادت کیلئے بھی اہم ہے۔ ’’ہم اختلافات کو دشمنی اور ذاتی حیثیت میں دیکھنے سے گریز کرتے تھے۔ بس اسی جذبے اور تنظیمی ڈسپلن کی ضرورت پی ایف یو جے اور یوجیز کو آج ہے۔ اس نسخہ پر عمل کر کے ہم سب بہت جلد ایک جمہوری اور اظہارِ رائے کی آزادی والے سماج کی تشکیل کرنے میں ضرور کامیاب ہونگے۔‘‘آج صحافت کو ماضی کے مقابلے میں سخت ترین’ غیر علانیہ‘ سنسرشپ کا سامنا ہے، معاشی مشکلات دِن بدن بڑھتی جارہی ہیں۔ ایک سو سے زائد صحافی شہید ہوچکے ہیں۔ صحافی کبھی لاپتہ ہوجاتے ہیں تو کبھی اُن میں سے کچھ کا ’سافٹ ویئر‘ اپ ڈیٹ ہوجاتا ہے۔ اسلام آباد میںحال ہی میں قائم کئے گئے ’جرنلسٹس پروٹیکشن کمیشن‘ کے چیئرمین کا تقرر بھی ’سیکورٹی کلیئرنس‘ کے بعد ہوا ہے باقی ممبرز کی سیکورٹی کلیئرنس ابھی مختلف مراحل میں ہے۔ سوچتاہوں یہ کام کیسے آگے بڑھے گا۔ اِس معاملے میں سندھ میں کچھ ٹھوس اقدامات ہوئے ہیں۔ یہاں ایسی کوئی سیکورٹی کلیئرنس نہیں ہوتی بلکہ اب تو کمیشن کا باقاعدہ سیکریٹریٹ بھی بن گیا ہے۔ ایک ’میوزیم‘ کا قیام بھی عمل میں لایا جارہا ہےجہاں پرنٹ ، الیکٹرونک اور ڈیجیٹل ریکارڈکا ذخیرہ کیا جائےگا۔ ریسرچ کے مقصد کیلئے صوبے میں کچھ اور بھی صحافتی اصلاحات لائی جارہی ہیں۔
جمہوری معاشرے میں جمہوریت کا تصور آزادیِ صحافت کے بغیر ممکن نہیں۔اگر صحافت آزاد نہیں تو جمہوریت ڈھونگ ہے۔ صحافیوں اور میڈیا کارکنوں کا معاشی قتل دراصل اُن کے خاندانوں کا معاشی قتل ہے۔ کوئی صحافی اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی کرتے ہوئے جان سے جاتا ہے تو اُس کا خاندان یتیم ہوجاتا ہے۔ پچھلے ہفتہ 2؍اگست، کو خالق دینا ہال میں اور پھر پی ایف یو جے کی مجلسِ عاملہ نے اس بات کا عہد کیا کہ جہاں آزادیٔ صحافت کے بغیر جمہوریت ممکن نہیں وہیں معاشی تحفظ کے بغیر صحافت یا تو ’ہیک‘ ہوجاتی ہے یا ’ہائی جیک‘ ہوجاتی ہے ۔ یہی آج کا چیلنج ہے پی ایف یو جے کا اور اس سوچ رکھنے والے کا بھی جو حقیقی جمہوریت کا قائل ہے۔