تاریخ کے بعض لمحات ایسے ہوتے ہیں جو قوموں کی قسمت کا رخ موڑ دیتے ہیں۔ تین ماہ پہلےسات مئی دو ہزار پچیس کا دن بھی ایسا ہی ایک تاریخی دن بن گیا جس نے پاکستان کو نہ صرف جنوبی ایشیا کی سیاسی و عسکری بساط پر ایک فیصلہ کن قوت کے طور پر منوایا بلکہ دنیا بھر میں اس کے امیج کو اُس مقام پر پہنچا دیا جو ساٹھ کی دہائی میں پاکستان کا خاصہ تھا۔ جب پاکستان کو نہ صرف ایک مضبوط معیشت بلکہ ایک مؤثر فوجی طاقت کے طور پر تسلیم کیا جاتا تھا۔7مئی کو شروع ہونے والی پاک بھارت کشیدگی کے بعد عالمی منظرنامہ تیزی سے بدلا۔ ایک جانب بھارتی میڈیا نے حسبِ روایت اپنی برتری کا دعویٰ کیا، تو دوسری جانب پاکستانی افواج نے زمینی اور فضائی محاذ پر جو جوابی کارروائیاں کیں، وہ نہ صرف حیران کن تھیں بلکہ عسکری دنیا کے ماہرین کیلئے ایک قابلِ مطالعہ مثال بھی بن گئیں۔امریکی دفاعی جریدے دی نیشنل انٹرسٹ نے اپنی رپورٹ میں اس بات کو تسلیم کیا کہ اس مختصر جنگ میں پاکستان نے حیران کن طور پر سبقت حاصل کی۔ جریدےکے مطابق دفاعی تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ عددی برتری کے باعث بھارت کو فوقیت حاصل ہوگی، مگر نتائج اسکے برعکس نکلے۔ اس جنگ میں پاکستان کی پیشہ ورانہ عسکری حکمت عملی، انٹیلی جنس کی بروقت فراہمی اور ٹیکنالوجی کا بہترین استعمال سامنے آیا۔گزشتہ دنوں برطانوی خبر رساں ایجنسی نے بھی پاکستان کی جانب سے 6بھارتی طیاروں کو گرانے پر مفصل رپورٹ جاری کی۔اس تنازعے کے دوران ایک اور حیران کن پہلو یہ رہا کہ بھارت کو وہ بین الاقوامی حمایت نہ ملی جسکی وہ ہمیشہ امید رکھتا تھا۔ یہاں تک کہ اسکے دیرینہ اتحادی امریکا نے بھی کھل کر بھارتی مؤقف کی حمایت سے گریز کیا۔ بھارت کی جانب سے پَہلگام واقعے کا الزام پاکستان پردھرنے کی کوششیں بھی ناکام ہو گئیں۔برعکس اسکے، پاکستان نے اپنے مؤقف کو نہایت وقار اور سلیقے سے عالمی فورمز پر پیش کیا۔
اس جنگ کا سب سے بڑا سفارتی فائدہ مسئلہ کشمیر کا دوبارہ عالمی منظرنامے پر آنا ہے۔ دہائیوں بعد پہلی بار امریکا نے باقاعدہ طور پر مسئلہ کشمیر کو ایک ’حل طلب‘ مسئلہ قرار دیا اور فریقین پر زور دیا کہ وہ مذاکرات کے ذریعے حل نکالیں۔ پاک بھارت کشیدگی کے دوران چین اور ترکیہ نے جس طرح پاکستان کو تکنیکی اور انٹلیجنس معاونت فراہم کی، وہ خطے میں ایک نئے اسٹرٹیجک اتحاد کی طرف اشارہ ہے۔ چین کی جانب سے جدید ڈیفنس ٹیکنالوجی اور ترکیہ کی ڈرون سپورٹ نے پاکستان کی دفاعی صلاحیتوں کو نیا رُخ دیا۔ یہ تعاون محض جنگی حالات تک محدود نہیں بلکہ اب دونوں ممالک پاکستان کے ساتھ مشترکہ دفاعی مشقوں، تربیتی کورسز اور عسکری پیداوار کے اشتراک میں دلچسپی ظاہر کر چکے ہیں۔ جس طرح ساٹھ کی دہائی میں عالمی رہنما پاکستان کا دورہ کرنا اعزاز سمجھتے تھے، وہی ماحول ایک بار پھر بن رہا ہے۔ حالیہ دنوں میں کئی عالمی سربراہان اور وزرائے خارجہ نے اسلام آباد کا دورہ کیا، جن میں چین، ترکیہ، ایران، آذربائیجان اور روس کے اعلیٰ سطحی وفود شامل ہیں۔ ان دوروں میں دفاعی، اقتصادی اور تزویراتی معاہدوں پر دستخط ہوئے، جو مستقبل میں پاکستان کیلئے نئے دروازے کھول سکتے ہیں۔اب جبکہ پاکستان دنیا کی توجہ کا مرکز بن چکا ہے، یہ وقت ہے کہ موجودہ حکومت اس موقع سے بھرپور فائدہ اُٹھائے۔ عالمی سرمایہ کاری کو دعوت دی جائے، ڈیفنس ٹیکنالوجی کی برآمدات میں اضافہ کیا جائے اور مقامی انڈسٹری کو مضبوط کیا جائے۔ وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں اگر یہی رفتار برقرار رہی تو پاکستان ایک بار پھر اقتصادی میدان میں بھی ساٹھ کی دہائی کا مقام حاصل کر سکتا ہے۔پاکستان اب مستقبل کے امکانات کو حقیقت میں بدلنے کے راستے پر گامزن ہے۔ اور اگر یہی رفتار برقرار رہی، تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان ایک بار پھر اسلامی دنیا کا رہنما اور عالمی برادری کا معزز رکن بن کر ابھرے گا۔