بہت سے پاکستانی نوجوان یہ خواہش رکھتے ہیں کہ وہ ایک نام وَر صحافی بنیں اور شُہرت کے حصول کے ساتھ پیسا بھی کمائیں، تو زیرِ نظر مضمون میں صحافی بننے کے خواہش مند نوجوانوں کی رہنمائی کے لیے چند گزارشات پیش کی جا رہی ہیں، اُمید ہے، ان پر عمل درآمدکی کوشش ایک اچھا صحافی بننے کے ضمن میں ممدو معاون ثابت ہوگی۔
ایک اچھے صحافی یا میڈیا میں کام کرنے والے کسی بھی فرد کے لیے اخبارات کا مطالعہ از حد ضروری ہے، جب کہ حیرت انگیز طور پر صحافی بننے کے خواہش مند اکثر طلبہ سرے سے اخبارات ہی نہیں پڑھتے اور نہ ہی اخبار بینی کی عادت اپنانے کی کوئی سنجیدہ کوشش کرتے ہیں۔
اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب مختلف جامعات میں ابلاغِ عامّہ کے طلبہ سے یہ سوال کیا جاتا ہے کہ وہ کون سے اخبارات یا کالم نگاروں کو باقاعدگی سے پڑھتے ہیں، تو اُن کےجوابات خاصے مایوس کُن ہوتے ہیں۔ بیش تر طلبہ یہی جواب دیتے ہیں کہ وہ اخبارات پر محض ایک نظر ڈالتے ہیں یا خبروں کو سرسری طور پر پڑھتے ہیں۔
عموماً ایسے طلبہ کی تعداد آٹے میں نمک کے برابرہی ملتی ہے کہ جو اخبارات میں شائع ہونے والے کالمز یا اداریوں کو بغور پڑھنے کے عادی ہوتے ہیں۔ تو میدانِ صحافت میں قدم رکھنے کے خواہش مند طلبہ اور نوجوانوں کے لیےپہلا مشورہ یہی ہے کہ وہ روزانہ کم از کم چار اخبارات پڑھنے کی عادت ضرور ڈالیں، جن میں دو اردو اور دو انگریزی اخبارات ہونے چاہئیں۔
اس ضمن میں اردو اخبارات میں ’’روزنامہ جنگ‘‘ کے علاوہ کسی دوسرے معتبر اردو روز نامے، جب کہ انگریزی معاصر میں ’’ڈان‘‘ اور ’’دی نیوز‘‘ کا مطالعہ کافی ہوگا۔ تاہم، اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ دیگر اخبارات نہ پڑھے جائیں، بلکہ بہتر یہی ہوگا کہ مزید اخبارات کا بھی مطالعہ کیا جائے، لیکن روزانہ کم ازکم یہ چار اخبارات تو لازماً پڑھیں۔
ایک اچھا صحافی بننے کے لیے اخبارات میں شایع شدہ خبروں کے علاوہ اداریے اور چند کالم نگاروں کے کالمز پڑھنا بھی نہایت ضروری ہے۔ ’’روزنامہ جنگ‘‘ کے کالم نگاروں میں محمود شام، الطاف حسین قریشی، عطاء الحق قاسمی، حامد میر، سلیم صافی، سہیل وڑائچ، بلال غوری، حماد غزنوی، مظہر عبّاس، اعزاز سیّد، عمّار مسعود، وجاہت مسعود، اور یاسر پیرزادہ وغیرہ کے کالمز لازماً پڑھیں اور اگر وقت ملے، تو دیگر کالم نگاروں کے کالمز پر بھی ضرور نگاہ ڈالیں۔
علاوہ ازیں، وسعت اللہ خان، جاوید چوہدری، زاہدہ حنا، رائو منظر حیات، توصیف احمد خان اور جاوید قاضی کے کالمز سے بھی ضرور استفادہ کیا جائے۔ ’’ڈان‘‘ میں لکھنے والے کالم نگاروں عبّاس ناصر، عاصم سجّاد اختر، ڈاکٹر پرویز ہُود بھائی، شہزاد شرجیل اور حارث خلیق کے علاوہ ندیم فاروق پراچہ کو پڑھنا بھی ضروری ہے، جب کہ ’’دی نیوز‘‘ کے کالم نگاروں میں عبدالسّتار، ڈاکٹر عائشہ رزاق، غازی صلاح الدّین، مبشّر بخاری اور طاہر کامران کو پڑھنے کی عادت ڈالیں۔
ہمارے خیال میں تو مذکورہ بالا کالم نگاروں کے کالمز پڑھ کر ہی صحافت کے طالبِ علم اپنے پیشے کی ٹھوس بنیاد رکھ سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ اچھے صحافیوں کے لیے علم کی ٹھوس بنیاد ہونا نہایت ضروری ہے اور تیکنیکی مہارتوں کے ساتھ ابتدا ہی سے اس بنیاد کی تعمیر کی کوشش کرنی چاہیے۔
دوسری جانب صحافی بننے کے خواہش مند طلبہ اور نوجوانوں کو سینئر اور تجربہ کار صحافیوں کی تصنیف کردہ کُتب اور اُن کے کالمز کے مجموعوں کا مطالعہ بھی ضرور کرنا چاہیے۔ اس ضمن میں ضمیر نیازی کی کُتب سرِ فہرست ہیں، جس میں انہوں نے پاکستان میں سنسر شپ کی تاریخ بیان کی ہے۔ یہ کتابیں نہ صرف پاکستان بلکہ دُنیا بَھر کے صحافتی سرمائے میں قابلِ قدراضافہ ہیں۔
ضمیر نیازی کی اردو کُتب میں ’’صحافت پابندِ سلاسل‘‘، ’’حکایتِ خُوں چُکاں‘‘، ’’باغ بانی صحرا‘‘ اور ’’مرحلۂ شوق‘‘ (ادبی مضامین) شامل ہیں۔ اس کے علاوہ اس فہرست میں احفاظ الرحمٰن کی تصانیف، ’’سب سے بڑی جنگ‘‘ اور ’’زندہ ہے زندگی‘‘، ڈاکٹر جعفر احمد کی مرتّب کردہ،’’ احفاظ الرحمٰن اور مزاحمت‘‘،وارث میر کی کُتب، ’’فلسفۂ خوشامد‘‘، ’’کیا عورت آدھی ہے؟‘‘ اور ’’فوج کی سیاست‘‘، سیدمجاہد علی کی تصنیف، ’’میڈیا برسرِ پیکار‘‘، حامد میرکی کتاب، ’’سچ بولنا منع ہے‘‘، عبد الحمید چھاپرا کی ’’کہانی کفن چورحُکم رانوں کی‘‘، علی احمد خان کی کتاب، ’’جیون ایک کہانی‘‘، فرہاد زیدی کی تصنیف، ’’ریت پر لکھا‘‘، ڈاکٹر مہدی حسن کی کُتب، ’’مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور ذرائع ابلاغ کا کردار‘‘ اور ’’ابلاغِ عامہ‘‘، عثمان جامی کی کتاب، ’’کہے بغیر‘‘، اکمل شہزاد گھمن کی’’میڈیا منڈی‘‘، ڈاکٹر قمر عبّاس کی تحقیقی کتاب، ’’روزنامہ جنگ کی ادبی خدمات‘‘، مظہر عباس کی تصانیف، سلیکٹر سے سلیکٹڈ تک‘‘ اور ’’اور پھر یوں ہوا‘‘، عمّار مسعود کی کُتب، ’’سیاست، ثقافت اورسماج میری نظر میں‘‘، ’’محبّت کا نیلا رنگ‘‘، ’’نواز شريف کی سیاست‘‘ اور ’’بغاوت‘‘، نذیر لغاری کی انٹرویوز پر مبنی کتاب، ’’تاریخ ساز لوگ‘‘ اور ’’عرضِ حال‘‘، عبدالکریم عابد کی تصنیف، ’’سفر آدھی صدی کا‘‘، شفقت تنویر مرزا کی تخلیق، ’’ہمارے سیاست دان اور اُن کی داستان‘‘، عطاء الحق قاسمی کی تصنیف،’’مزید گنجے فرشتے‘‘، اختر وقار عظیم کی کاوش، ’’ہم بھی وہیں موجود تھے‘‘،برہان الدّین حسن کی تصنیف،’’پسِ پردہ‘‘، سہیل وڑائچ کی تصانیف،’’جرنیلوں کی سیاست‘‘ اور’’مذہبی سیاست کے تضادات‘‘، ڈاکٹر نسیم آراء کی کُتب، ’’اردو صحافت کے ارتقاء میں خواتین کا حصّہ‘‘، وسعت اللہ خان کی تصنیف، ’’سیلاب ڈائری‘‘ آئی اے رحمان کی منتخب تحریریں، ’’آشفتہ سری کا قرض‘‘، محمود شام کی تخلیق،’’میڈیا منظر، پاکستان میں ذرائع ابلاغ کا ماضی، حال اور مستقبل‘‘، رؤف کلاسرا کی تصنیف، ’’ایک سیاست، کئی کہانیاں، اوریانا فلاسی کے انٹرویوز کا مجموعہ، جن کا ترجمہ منیب شہزاد نے ’’تاریخ کا دریچہ‘‘ کے عنوان سے کیا ہے اور ڈاکٹر توصیف احمد خان کی تصانیف، ’’پاکستان میں صحافت کی متبادل تاریخ‘‘،’’آزادیٔ صحافت کی جدوجہد میں اخباری تنظیموں کا کردار‘‘،’’پاکستان میں میڈیا کا بحران‘‘ (جو ان کی اور عرفان عزیز کی مشترکہ کاوش ہے) وغیرہ شامل ہیں۔
مذکورہ بالا کُتب کے علاوہ صحافت کے طلبہ کو اُن صحافیوں کی خدمات کا بھی علم ہونا چاہیے کہ جو ہمیشہ اظہارِ رائے کی آزادی کے علم بردار رہے۔ ان میں نثارعثمانی، منہاج برنا، سلیم شہزاد، سبین محمود، ہدایت الله، ناصر زیدی، خاور نعیم ہاشمی، اقبال جعفری، مسعود اللہ خان ( ان چاروں کو جنرل ضیاء الحق کے دَور میں فوجی عدالت نے کوڑے مارنے کی سزا سنائی تھی) وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔
نوواردانِ صحافت کے لیے پاکستان کی تاریخ اور سماج کا مطالعہ بھی بے حد ضروری ہے، تاکہ وہ یہ جان سکیں کہ ہمارا مُلک کن مسائل سے دوچار ہے اور اِن مسائل کے ممکنہ حل کیا ہو سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں جن مصنّفین کی تصانیف کارآمد ثابت ہو سکتی ہیں، اُن میں احمد سلیم، اکبر زیدی، علی رضا، علی عثمان قاسمی، علی عبّاس جلال پوری، عمّار علی جان، عاصم سجاد اختر، کامران اصدر علی، کے کے عزیز، مبارک علی، پرویز ہُود بھائی، ریاض شیخ، سبطِ حسن اور تیمور رحمان وغيرہ شامل ہیں۔
مطالعے اور مشاہدے کے علاوہ نئے صحافیوں کو اپنی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی کے حوالے سے ایک مخصوص رویّہ اپنانا دینا چاہیے اور یہ یاد رکھنا چاہیے کہ صحافت یا میڈیا میں کوئی بھی قابلِ قدر کام کرنے کے لیے بہرکیف، بڑی قربانی بھی درکار ہوتی ہے۔
اگر تو محض کمائی ہی مقصد ہے، تو پھر مٹھائی کی دُکان کھول لیں یا کسی برگر چین کی فرنچائز حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ واضح رہے، حقیقی صحافت کے لیے دیانت داری اور ذمّےداری شرطِ اولین ہے اور ساتھ ہی عوامی خدمت کا جذبہ بھی لازماً موجود ہو اور اگر کسی کو یہ سب بہت مشکل لگے، تو پھر اُسے یقیناً صحافت کی بجائے کوئی اور پیشہ اختیار کرنے سے متعلق سوچنا چاہیے۔ یاد رکھیں، آپ دولت اور عارضی شُہرت تو شارٹ کٹ سے حاصل کرسکتے ہیں، مگر علم و شعور، عزّت و احترام اور نیک نامی کا کوئی شارٹ کٹ نہیں۔
ویسے تو ہر بڑے کام کے لیے قربانیاں دینی، خُود کو وقف کرنا پڑتا ہے، لیکن خاص طور پر کچھ پیشے تو ایسے ہیں کہ اُن کے لیے بہت زیادہ عزم وحوصلہ، تن دہی گویا لازم و ملزوم ہے اور آپ تعلیم، طب، صحافت، قانون وغیرہ کو ایسے شعبہ جات میں سرفہرست رکھیں کہ اِن سے وابستہ افراد سےزیادہ توقّعات وابستہ رکھی جاتی ہیں۔ اِن پروفیشنز میں اصولوں پر سمجھوتا نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی اخلاقیات کا دامن چھوڑا جا سکتا ہے۔
سماجی میڈیا کےاس دَورمیں جہاں معلومات تک رسائی کے بہت سے فوائد ہیں، وہیں نقصانات بھی ہیں، جن میں سے ایک بڑا نقصان یہ ہے کہ لوگوں کے ارتکاز کا دورانیہ خاصا کم ہوگیا ہے اور بہت سے نوجوان بھی اس مسئلےکا شکار ہیں، تو نئے صحافیوں کو اپنی اِس کم زوری پر قابو پانے کی اشد ضرورت ہے، کیوں کہ یہی کم زوری شدید نفسیاتی مسائل کا بھی باعث بن سکتی ہے۔
واضح رہے کہ ایک اچھا صحافی بننے کے لیے طویل مضامین، مقالے اور کُتب پڑھنے کی صلاحیت حاصل کرنا بھی نہایت ضروری ہے، خصوصاً تحقیقی مضامین کا مطالعہ صحافیوں کے لیے خاصا کارآمد ثابت ہوتا ہے، لیکن بہت کم صحافی ہی ایسا کر پاتے ہیں اور شاید اسی لیے وہ کسی نہ کسی طرح صحافی تو بن جاتے ہیں، لیکن بہرحال اچھے صحافی نہیں بن پاتے۔ نیز، مطالعے کی عادت کے بغیر کوئی معلومات کا کاٹھ کباڑ تو جمع کر سکتا ہے، لیکن ایک صاحبِ علم صحافی نہیں بن سکتا۔
صحافت کا ایک خاصّہ یہ بھی ہے کہ اس میں نہ صرف دوسروں کو جواب دہ ٹھہرایا جاتا ہے، بلکہ خُود بھی ہمہ وقت سماج اور قارئین یا سامعین و ناظرین کے سامنے جواب دہی کے لیے آمادہ رہنا پڑتا ہے۔ جس طرح کوئی صحافی دوسروں کو اُن کےاقوال و اعمال پر للکار سکتا ہے، تو اُسی طرح خُود اُسے بھی اپنے قول و فعل پر چیلنج کیا جاسکتا ہے اور اُس سے جواب دہی بھی کی جا سکتی ہے۔ جس طرح جمہوریت میں چیک اینڈ بیلنس ضروری ہے، اِسی طرح صحافت بھی اِسی قانون سے عبارت ہے۔ سماجی میڈیا اور فوری اطلاعات کی فراہمی کے اس دَور میں ایک صحافی کا بنیادی کام یہ ہے کہ وہ اطلاعات و معلومات کے سیلاب میں سے دُرست اطلاعات و معلومات کی تصدیق کرے اور انہیں آگے بڑھائے۔
اب اعلیٰ صحافت اور سماجی میڈیا میں فرق یہ رہ گیا ہے کہ صحافت اب بھی ایک معزّز و محترم پیشہ ہے، تا وقتیکہ آپ اُسے گنوانے کے درپے نہ ہوں۔ صحافی کا عزّت و احترام اُسی وقت ممکن ہے کہ جب وہ مصدّقہ اطلاعات و معلومات کی نشر و اشاعت کرے۔ جو صحافی خبر کی تصدیق نہیں کرتے یا پھر اُسے دباتے اور چُھپاتے ہیں، تو وہ اپنی وقعت کھو دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر آج بلوچستان کے مسائل میڈیا میں بہتر کوریج کے متقاضی ہیں، مگر چند ہی صحافی جیسا کہ حامد میر، شاہ زیب خان زادہ اور عاصمہ شیرازی وغیرہ اس موضوع پر بات کرتے اور لکھتے ہیں۔
نئے صحافیوں کو یہ مشہور مقولہ یاد رکھنا چاہیے کہ ’’صحافت صاحبانِ اختیار و اقتدار کو للکارنے کا نام ہے، بصورتِ دیگرتعلقاتِ عامّہ کے علاوہ کچھ نہیں۔‘‘1971ء میں جب مشرقی پاکستان کے حالات انتہائی کشیدہ تھے، تو اخبارات پر سخت سنسرشپ عائد تھی اور کوئی صاحبانِ اقتدار کو للکار نہیں سکتا تھا۔ اس عمل کے تباہ کُن نتائج برآمد ہوئے، کیوں کہ مغربی پاکستان کے عوام غیر مُلکی نشریاتی اداروں سے معلومات حاصل کررہے تھے اور سرکاری نشریاتی ادارے عوام کو بےخبر رکھنے پر تُلے ہوئے تھے۔
نتیجتاً، سنسرشپ کے ذریعے جنگ جیتی جا سکی اور نہ پاکستان کو متحد رکھا جاسکا، جب کہ فوجی آمر جنرل یحییٰ خان اپنا اقتداربھی نہ بچا سکے۔ بہرکیف، صحافت اور آزادیٔ اظہارکے لیے غیر موافق صورتِ حال کے باوجود صحافیوں کو پُر امید رہنا چاہیے اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ پاکستان تباہی کی طرف گام زن ہے یا اس مُلک میں خیر کی اُمید رکھنا بے سود ہے، وہ شاید یہ نہیں جانتے کہ دُنیا کے کئی ممالک میں اظہارِ رائے کی صورتِ حال پاکستان سے بھی بدتر ہے۔ پاکستان کے صحافیوں نے ہمیشہ بھرپور جدوجہد کی ہے اور یقین ہے کہ مستقبل میں بھی وہ اس روایت کو زندہ و تابندہ رکھیں گے۔