اقصیٰ منور ملک، صادق آباد
گھر کی دیواروں پر تو اداسی تب ہی سے بال کھولےسو رہی تھی، جب سے صہیب نے انگلینڈ جا کر نوکری کرنے کی بات کی تھی۔ سبھی نے اُسے لاکھ سمجھایا، مگر اس کے سر کا بھوت نہ اُترا۔ آئے دن گھر میں اِسی بات پر بحث و تکرار ہوتی، لیکن وہ اپنے فیصلے سے دست بردار ہونے پرآمادہ نہ تھا۔ گھر میں چھوٹا ہونے کے سبب سبھی کا چہیتا تھا اور ہمیشہ اُسے نظروں کے سامنے رکھا گیا تھا، تو اب گھر والے اُسے اتنی دُور پردیس جانے کی اجازت کیسے دے دیتے، اُن کے لیے تو یہ تصوّر ہی سوہانِ روح تھا۔
آج پھر سے وہ وہی موضوع چھیڑ کر بیٹھ گیا۔ بڑے بہنوئی صاحب نے، جو آرمی آفیسر تھے، بُہتیرا سمجھایا۔ ’’پردیس میں رہنا، وہ بھی اکیلے، اِتنا آسان نہیں…!‘‘ اُس کا جواب تھا۔ ’’بھائی جان! مَیں کوئی انوکھا ہی بیرونِ مُلک کمانے نہیں جارہا۔ اتنے لوگ جاتے ہیں، اب تو یہ عام سی بات ہے۔‘‘’’عام سی بات ہوگی، مگر تم اتنے لاڈ پیار سے پلے بڑھے ہو، ناز اُٹھوانے کی عادت ہے، وہاں قیدِ تنہائی کاٹنی بہت مشکل ہوگی تمہارے لیے۔‘‘ وہ اُن کے سمجھانے پر چِڑ سا گیا۔ ’’بھائی جان! مَیں کوئی چھوٹا بچّہ تھوڑی ہوں، اپنا خیال خُود رکھ سکتا ہوں۔ اور آپ وہاں کی آزاد فضاؤں، میرے خوابوں کی سرزمین کو قیدِ تنہائی کہہ رہے ہیں۔ وہاں جو آسائشیں، سہولتیں ہیں، اُن کا یہاں تصور بھی ممکن نہیں۔
آپ نہیں جانتے، مَیں نے وہاں زندگی گزارنے کے کیسے کیسے خواب دیکھ رکھے ہیں۔‘‘ کمرے میں گہری خاموشی چھاگئی، جسے بھائی جان نے راحت اندوری کے یہ اشعار پڑھ کر توڑا۔ ’’؎ تمہیں پتا یہ چلے گھرکی راحتیں کیا ہیں … ہماری طرح اگر چار دن سفر میں رہو…ہے اب یہ حال کہ در در بھٹکتے پِھرتے ہیں…غموں سے مَیں نے کہا تھا کہ میرے گھر میں رہو۔‘‘ جواباً اُس نے صرف مُسکرانے ہی پر ہی اکتفا کیا۔
’’یہاں رہنے کی کوئی تو وجہ ہو، رکھا ہی کیا ہے، اس مُلک میں؟ غربت نے مستقل ڈیرے جما لیے ہیں، فقروافلاس سے پریشان حال لوگ خُود کُشیاں کر رہے ہیں، تعلیم یافتہ نوجوان جابز کی تلاش میں جُوتیاں چٹخارہے ہیں…اور تو اور جا بہ جا گندگی کے ڈھیر، دھول، آلودگی، اوپر سے بجلی، گیس کی لوڈشیڈنگ… رہی جہالت، وہ توسونے پر سہاگا ہے۔ اب اگر اِن حالات میں خوش قسمتی سے میرا دوست مجھے انگلینڈ بُلا ہی رہا ہے اور وہ بھی اتنی زیادہ سیلری کی آفر کےساتھ، تو میرا نہ جانا کفرانِ نعمت نہیں ہوگا؟‘‘
آج پھر سے صہیب پچھلے دو گھنٹوں سے گھر والوں کو آمادہ کرنے کی کوشش کر رہا تھا اور وہ سب اُسے منارہے تھے کہ وہ یہاں رہ کر بھی تو کما سکتا ہے، خصوصاً جب سے اُس نے ویزا پراسیس مکمل کیا تھا، امّاں کے تو آنسو ہی رُکنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ ان کے آنسو دیکھ کر دادی سے رہا نہ گیا۔
تو بول اُٹھیں۔ ’’بیٹا! تمہارے ابّا کا اتنا اچھا کاروبار ہے، اپنے بھائیوں کو دیکھو، تمہارے ابّا کی ایک کپڑے کی دکان سے مارکیٹ میں کئی دکانیں بنالیں، صرف اپنی محنت کے بل بُوتے پر، تم بھی اُن کا ہاتھ بٹاؤ اور اگر یہ نہیں کرنا چاہتے تو چاہے کوئی نوکری ڈھونڈ لو، مگر باہر مت جاؤ۔ تمہاری ماں تمہارے بغیر کیسے رہے گی؟‘‘
دادی جان نے پیار سے سمجھایا، مگر وہ اپنی ہی ضد پر اڑا رہا۔ ’’دادی جان! صرف دو ڈھائی سال کی تو بات ہے، وہاں یہ عرصہ ایسے گزر جائے گا۔‘‘ اُس نے چٹکی بجاتے ہوئے کہا۔ ’’مگر، ہمارے لیے دو سال دو صدیوں کے برابر ہوں گے بھیّا!!‘‘ اُس سے بڑی ایمن بھی اُس کے جانے کا سُن کر رو دینے کو تھی، البتہ امّاں اس دوران زبان سے کچھ نہیں بولیں، بس اُن کے آنسو ہی چیخ چیخ کر اُن کے دل کی کیفیت بیان کررہے تھے۔ اور پھر… ابّا کا غصّہ، دادی کی نصیحت، بھائیوں کی ڈانٹ، بہنوں کی التجائیں اور امّاں کےآنسو سبھی رائیگاں چلے گئے۔ اُس نے اپنے خوابوں کی سرزمین کو اپنے قدموں تلے روند کر ہی دَم لیا تھا۔
آج ائیرپورٹ سے نکلتے ہوئے وہ بہت خوش تھا۔ بےساختہ اُس کے منہ سے ’’الحمدُ اللہ‘‘ نکلا۔ مارے خوشی کے دو آنسو اُس کے گالوں سے پھسل کر زمین میں جذب ہو گئے۔ صہیب نے پورے دوسال ایک ماہ اور نو دن بعد اپنے وطن کی سزمین پر قدم رکھا تھا۔ احساسِ سودوزیاں اُسے اب بخوبی ہوچُکا تھا۔
اُس نے گھر والوں کو اپنے آنے سے متعلق کچھ نہیں بتایا تھا۔ سورج ڈوبنے کے بعد آسمان پر ہلکی ہلکی سرخی پھیلی ہوئی تھی۔ خنک ہوا کے تیز جھونکے زرد پتوں کو اپنے سنگ اُڑا کر دُور تک بکھیر دیتے۔ یہاں سےجاتے ہوئے اُسے اِن ہی جگہوں، مناظر میں لاکھ برائیاں اور عیب نظر آرہے تھے، لیکن آج ہر منظر حسین، بے حد دل کش محسوس ہو رہا تھا۔
دروازہ امّاں ہی نے کھولا تھا۔ اور اُنہیں دیکھ کر آنسو، جنہیں بڑی مشکل سے ضبط کر رکھا تھا، بغاوت پر اُتر آئے، تو اُس نے ہتھیار ڈال کر اُنہیں بہنے دیا۔ پھر وہ دیر تک اماں کا کندھا بھگوتے رہے۔ رات کے کھانے کے بعد خُوب محفل جمی۔ چائے پیتے ہوئے قہقہے، یادیں، باتیں بانٹی جارہی تھیں اور صہیب مگ ہاتھ میں تھامے بڑی محویت اور جذب سے اپنے پیاروں کے چہروں پر پھیلی خوشیاں دیکھ رہا تھا۔’’بھیا! آپ بھی تو کچھ کہیں ناں… لگتا ہے، آپ ابھی بھی لندن کی سرد، خُوب صُورت شاموں کی یاد میں کھوئے ہوئے ہیں۔ ‘‘ایمن نے اُسے چھیڑا۔ ’’بس بھئی، زیادہ اداس ہونے کی ضرورت نہیں۔
دو، ڈھائی کی ماہ کی چُھٹیاں گزار کر واپس چلے ہی جاؤ گے۔ ویسے بھی اب یہاں دل کیسے لگے گا، تمہیں تو وہاں کی رونقوں، آسائشوں اور آزاد فضاؤں کی عادت ہوگئی ہو گی۔‘‘ بڑی بھابھی نے کہا تو امّاں جان کے دل میں خدشے نےسر اُٹھایا۔ ’’بیٹا! تم پھر واپس چلے جاؤ گے؟‘‘ اور وہ اُٹھ کر ان کے پاس آبیٹھا۔ ’’نہیں امّاں! بس، اب کبھی آپ کو چھوڑ کر نہیں جاؤں گا۔
مجھے احساس ہو گیا ہے کہ مَیں آپ سب کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ آپ جانتی ہیں وطن سے، گھر سے، آپ سب سے دُور رہ کر مَیں نے ہر چیز کی اہمیت کو بڑی شدّت سے محسوس کیا ہے۔ وطن سے دُور جا کر مجھے احساس ہوا، وطن تو بالکل گھر جیسا ہوتا ہے اور گھر کیسا ہی ہو، سکون گھر ہی میں ملتا ہے۔ وہاں کی آزاد فضاؤں میں میرا دَم گھٹتا تھا۔ وہاں مَیں نے آپ سب کو بہت یاد کیا، آپ سب کے ساتھ گزرے ماہ و سال، اپنا محلہ، دوست، شہر اور تو اور اسکول کے گولے گنڈے والے سے گلی کی نکڑ کے شکرقندی چاٹ بیچنے والے انکل تک کو یاد کیا…‘‘ وہ اپنی بات پر خُود ہی بےساختہ ہنسا۔
’’اورامّاں، ابّا…! سب سے زیادہ کمی مَیں نے آپ دونوں کی محسوس کی…بیمار ہوا، تو وہاں کوئی نہیں تھا، جو زبردستی ڈاکٹر کے پاس لےجاتا۔ ساری ساری رات میرا خیال رکھتے گزار دیتا…امّاں! جب یہاں تھا، تب بھی عادت تھی، موبائل دیکھتے یا کتاب پڑھتے سو جاتا، پھر آپ ہی موبائل چارجنگ پر لگاتیں، کتاب اُٹھا کر رکھتیں، مجھ پر کمبل ڈال جاتیں۔ وہاں آپ نہیں تھیں، جبھی تو صُبح اُٹھتا، اکثر کتاب بیڈ سے نچے گری ہوتی۔ موبائل کی چارجنگ بالکل ختم ہوتی اور… رات کو سردی سے کانپتے، ٹھٹھرتے آنکھ کُھلتی تو خُود ہی کمبل لینا پڑتا۔
شام میں تھکا ہارا گھر آتا تو آپ کے ہاتھ کی گرما گرم، کڑک چائے نہیں ہوتی تھی، جو میری ساری تھکاوٹ دُور کردیتی اور نہ آپ کے ہاتھ سے بنے لذیذ کھانے، جنہیں کھانے کو مَیں ترس ہی گیا تھا…اور سب سے بڑھ کر آپ کی گود…جہاں سر رکھ کر مَیں اپنی ساری پریشانیاں، سارےغم بھول جاتا ہوں۔ نہیں، امّاں! اب یہ سب چھوڑ کر مَیں کہیں نہیں جاؤں گا۔‘‘ نم آنکھوں اور بھیگے لہجے میں کہتے ہوئے اُس نے سر ماں کی گود میں رکھ دیا، تو سبھی کی آنکھیں جھلملا نے لگیں، بالآخر اُسے گھر کی راحتوں کا احساس ہی ہوگیا تھا۔