میں اس دن اتفاق سےشہرسےدور مضافات میں اینےایک عزیز کےگائوں میں ٹھہراہواتھا ۔رات کافی بیت چکی تھی اوراس پورےدیہات میں تاریکی چھائی ہوئی تھی۔ کہیں کہیں شاید لوگ جاگ رہےتھےجس طرح دیہات کی ایک پرانی روایت چلی آرہی ہےکہ مختلف ڈیروں پرلوگ معمول کی گپ شپ کیلئےسرشام جمع ہونےلگتےہیں اوردیرتلک پھرمحفل جمی رہتی ہے۔ہم بھی رات گئے اپنےعزیز کےڈیرے پربیٹھےگپ شپ میں مشغول تھےکہ اچانک گولیوں کی تڑتڑاہٹ سنائی دینےلگی یہ سلسلہ پانچ سےدس منٹ تک جاری رہا کچھ لمحےبعد صرف ایک آواز گونج رہی تھی ’’پولیس مقابلہ! پولیس مقابلہ‘‘!علاقے بھرمیں خوف کی فضاتھی اور لوگ ایک دم سہم چکےتھے اوروہ اس سوچ میں الجھےہوئےتھےکہ کون ماراگیااوریہ آخر کیا ماجرا ہوسکتاہے؟
دراصل پنجاب میں ایک نئی پولیس فورس’’سی سی ڈی‘‘ (Crime Control Department) کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ یہ فورس منظم جرائم کے خلاف جنگ لڑنے کا عزم رکھتی ہے، لیکن اس کے قیام کے ساتھ ہی بہت سے سوالات نے بھی جنم لے لیا ہے۔ کیا یہ فورس واقعی معاشرے کودیرپا امن دےپائے گی یا محض ایک نئے قسم کے خوف کی بنیاد ہی ثابت ہوگی؟اس تجزیےکامقصد حکومت کی نیت پرشکوک شبہات پیداکرنانہیں کیونکہ جرائم پیشہ افراد، قبضہ مافیا اور بھتہ خوروں نے عام آدمی کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔
ایک ایسی فورس جوایسےمعاملات کےتدارک کیلئے کاگرثابت ہواورمعاشرےمیں بڑھتے جرائم کی مکمل بیخ کنی کر سکے،یقینی طورپر وقت کی ضرورت تھی لیکن ماورائے عدالت قتل (Extra Judicial Killings) کا مسئلہ اس ضمن میں سب سےاہم ہے اسلئےکہ جب ہم پولیس مقابلے کی خبریں سنتے ہیں تو ہمارے ذہن میں ایک ہی سوال ابھرتا ہےکہ کیا انصاف کا راستہ عدالتوں سے نہیں گزرتا؟ کیا قانون کسی بڑے سے بڑےملزم کو یہ حق نہیں دیتا کہ وہ اپنے اوپر لگے الزامات کا دفاع قانون کےمطابق کر سکے؟ جب فیصلے سڑک پر ہونے لگیں تو قانون کی حکمرانی کا تصور کیا معنی رکھتا ہے؟ ایساطریق کاریااس طرح کا انصاف عوام میں اطمینان کی بجائے ایک گہرے خوف کو جنم دیتا ہے۔
یہ ایک یونیورسل ٹروتھ ہےکہ طاقت ہمیشہ اپنے ساتھ ایک خطرہ لاتی ہے، اور وہ ہے اس کا غلط استعمال۔ جب عجلت میں قائم کی گئی ایک نئی فورس کو بے پناہ اختیارات دےدیے جائیں تو کیا اس بات کی کوئی ضمانت ہے کہ وہ ان اختیارات کا غلط استعمال نہیں کرے گی؟ ہمارا معاشرہ پہلے ہی بداعتمادی کی فضامیں سانس لےرہاہے توکیا سی سی ڈی اس فضاکومزیدآلودہ نہیں کردے گی؟
حالات پرگہری نظررکھنےوالےایک تعلیم یافتہ طبقےکی رائےاس حوالے سے یہ ہے کہ ایک نیا گھر بنانے سے پہلے کیا ہمیں پرانے گھر کی چھت کو ٹھیک نہیں کرنا چاہیے؟روایتی پولیس کے محکمے میں موجود خامیوں کو دور کرنے اور اسے جدید خطوط پراستوارکرنے کےبجائے ایک نیا ادارہ کھڑا کرنا ایک عارضی حل لگتا ہے۔ یہ اصل بیماری کا علاج نہیں بلکہ شایدایک شارٹ کٹ بریک تھرو کےحصول کی ممکنہ کوشش ہے۔
پولیس کا کام عوام کا تحفظ کرنا ہوتا ہے، نہ کہ انہیں ڈرانا۔ اگر سی سی ڈی کے کام کرنے کا طریقہ عوام کے لیے خوفناک ہوا تو وہ پولیس کے قریب نہیں آئیں گے۔ ایک ایسی فورس جو عوام سے دور ہو کر کام کرے، وہ کبھی بھی پوری طرح کامیاب نہیں ہو سکتی۔
جرائم کو ختم کرنے کے لیے عوامی تعاون ایک لازمی امرہے۔سی سی ڈی کا قیام ایک اچھا خواب ہو سکتا ہے، لیکن اس کی تعبیر اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اسے شفافیت، احتساب اور قانون کی پاسداری کی بنیادوں پر استوار نہ کیا جائے۔ ورنہ، خدانخواستہ یہ امن کا راستہ بنانے کی بجائے ہمارے معاشرے میں ایک نیا طوفان بھی برپا کرسکتی ہے۔
امید ہے کہ ہمارے اربابِ اختیار اس نئی فورس کےنئےسسٹم کو ایک ایسا ڈھانچہ دیں گے کہ جو نہ صرف یہ کہ آنےوالےوقت میں جرائم کا مکمل خاتمہ کرنےمیں مددگارثابت ہوبلکہ انصاف اور انسانی وقار کی بھی حفاظت کرے۔