• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی تخلیق ایک عظیم راز ہے۔ یہ محض اتفاق نہیں ہو سکتا کہ جدوجہدِ آزادی کے طویل ترین سفر کو منزل رمضان المبارک کے ماہِ مبارک اور ہزار مہینوں سے افضل رات لیلتہ القدر میں نصیب ہوئی۔ یہ الگ بات ہے کہ پاکستان کی تخلیق کے بعد سے ہی پاکستان کو شدید ترین معاشی ،معاشرتی ،سیاسی، اقتصادی اور نادیدہ چیلنجز کا سامنا رہا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کو اللہ پاک نے مشکلات اور پریشانیوں کے باوجود ہمیشہ مقامِ ممتاز سے نوازا۔

مئی میں ہونیوالی پاک بھارت محدود جھڑپ نے اسے اقوامِ عالم میں معاشی وسیاسی عدم استحکام کے باوجود ایک بار پھر نمایاں اور ممتاز کر دیا۔ پاکستان اس معرکہِ بنیانِ مرصوص میں سرخرو ہونے کے بعد اپنا 78واں یومِ آزادی منا رہا ہے تو اس بار شان و شوکت، جوش و خروش اور ولولہ ہی الگ ہے۔ ہمارے ازلی دشمن نے ابتدائے سفر سے ہی ہماری راہوں میں روڑے اٹکانے کی بارہا کوششیں کیں لیکن اللہ پاک نے ہمیشہ اسے ناکام فرمایا۔ آج خود ہندوستانی آزاد خیال مفکرین پاکستان کی سفارتی، جغرافیائی اور حربی اہمیت و کردار کے معترف ہیں۔ دنیا بھر میں مسلمانوں کے خلاف ہونیوالے حالیہ تعصباتی اقدامات اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ قائدِاعظم محمد علی جناح کی دور بین نگاہ نے دوقومی نظریے کی حقیقت کو جان کر اسکو اپنی جدوجہد کی اساس بنایا، آج پوری دنیا اسی دو قومی نظریے کی بنیاد پر تقسیم نظر آتی ہے، مسلم اور غیر مسلم کے درمیان واضح تفریق ابھر کر سامنے آئی ہے جس سے صرفِ نظر ممکن نہیں۔بھارت نے شروع سے ہی پاکستان کی بنیادی اساس دو قومی نظریے کو جھٹلایا لیکن یہ دلچسپ حقیقت ہے کہ اسکے ہمیشہ سے ہمسایہ مسلم ممالک افغانستان، بنگلہ دیش اور ایران سے پاکستان کی نسبت قدرے قریبی تعلقات رہے، ان تعلقات کا مقصد معاشی،سفارتی و سیاسی مفادات سے کہیں بڑھ کر پاکستان کی سالمیت کو نقصان پہنچانا رہا ہے۔ یہ امر اب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں کہ افغانستان میںمتعین بھارتی سفارتکار اور را کے ایجنٹ پاکستان میں ہونیوالی دہشت گردانہ کارروائیوں کے ماسٹر مائنڈ رہے ہیں جو نہ صرف پاکستان میں بدامنی پھیلانے کے منصوبوں پر عمل پیرا رہے بلکہ افغانستان میں اپنا اثر و رسوخ قائم رکھنے کیلئے عدم استحکام کا باعث بنتے رہے۔

بھارت نے پاکستان کو دولخت کرنے کیلئے مکتی باہنی کو کس طرح استعمال کیا یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں لیکن پھر بنگلہ دیش کے اندرونی معاملات میں بے تحاشا مداخلت اور سازشیں کر کے بنگلہ دیش کو کس طرح کمزور کرنے کی کوششیں کیں وہ بھی عیاں ہو چکیں۔ پاکستان کیساتھ بطور دیرینہ برادر اسلامی ملک، تعلقات کے باوجود ایران نے اپنے معاشی مفادات کے مدِ نظر پاکستان سے زیادہ گہرے مراسم بھارت سے استوار کیے۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس دوران ایران میں بھارتی سفارتکار پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں تخریبی کارروائیوں میں ملوث رہے بھارتی دہشت گرد کلبھوشن یادیو ایران پاکستان کے بلوچستان سے ملحقہ سرحدی علاقہ سے گرفتار ہوا جو اس بات کا واضح ثبوت تھا کہ ایران کے سرحدی علاقوں سے بلوچستان میں بھارتی دراندازی کی جا رہی ہے ۔

پاک بھارت محدود ٹاکرے میں اسرائیل کی بھارت کو بھرپور تکنیکی معاونت اور اسکے ماہرین کی بھارت کی عملی مدد کے باوجود جب اللہ نے پاکستان کو عزت و نصرت سے نوازا تو پاکستانیوں کی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ یہود وہنود کا گٹھ جوڑ پوری دنیا کے ساتھ ساتھ ایران پر بھی آشکار ہوا۔کچھ عرصہ بعد صہیونی ریاست کے ایران پر حملہ میں بھارت نے بدلے میں اسرائیل کا کھل کر ساتھ دیا تو ایران نے بھارت کا منافقانہ چہرہ بھی دیکھ لیاجبکہ پاکستان نے اپنے اصولی موقف پر قائم رہتے ہوئے اسرائیل کی نا صرف مذمت کی بلکہ سفارتی سطح پر ایران کا بھرپور ساتھ دیا یہی وجہ تھی کہ ایرانی صدر نے جنگ کے بعد سب سے پہلے پاکستان کا دورہ کر کے پاکستان کا شکریہ ادا کیا اور پاکستان کیساتھ کئی معاہدوں کا اعلان بھی کیا۔ آج بھار ت میں بسنے والے کروڑوں مسلمان اور اقلیتیں غلامی سے بھی بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور سیکولر ریاست کہلانے والا بھارت آج بھی مسلمانوں کو بنیادی انسانی حقوق دینے میں ناکام ہے۔ قائدِ اعظم نے ہندوتوا کی اسی سوچ کو بھانپتے ہوئے مسلمانوں کو استحصالی سازشی رویوں سے محفوظ رکھنے کیلئے جس دو قومی نظریے کو بنیاد بنایا تھا۔ آج وہ دو قومی نظریہ ایک تلخ حقیقت کے طور پردنیا کے سامنے ہے۔ صدیوں برصغیر میں اکٹھے رہنے کے باوجود ہندو ، مسلمانوں کو تسلیم اور برداشت کرنے سے انکاری ہیںیہی تعصب بھارت کو پاکستان کیخلاف سازشوں پراکساکر دونوں ممالک کے عوام کو بنیادی مسائل میں الجھائے رکھتا ہے ۔ آج ہم مختلف مسائل کے باوجودپاکستان میں مذہبی ،سماجی ،معاشرتی اور معاشی طور پر آزاد ہیں۔ بھارت کی نسبت پاکستان میں اقلیتیں زیادہ محفوظ ، ترقی یافتہ اور یکساںحقوق و مواقع کی حامل ہیں۔ قائدِ اعظم نے جس دوقومی نظریے کو پاکستان کی تشکیل کی بنیاد بنایا تھا وہ دو قومی نظریہ آج بھی ایک تلخ حقیقت کے طور پر موجود ہے بلکہ ہندو توا کی روایتی سوچ کی صورت اپنی افادیت کا واضح ثبوت بھی ہے۔

(مصنف جناح رفیع فائونڈیشن کے چیئرمین ہیں)

تازہ ترین