• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہر سال 14اگست کو جب ہم پرچم کو سلام کرتے ہیں، ہم اپنے شہداء، سپاہیوں، بانیوں اور اپنی اُمیدوں کو یاد کرتے ہیں۔ اور بے شک، یہ دن پاکستان کی روح سے منسلک ہے۔ لیکن جب میں اپنی قوم کے سفر اور اُن اَن گنت قربانیوں پر غور کرتا ہوں جنہوں نے اس ملک کی بنیاد کو تھام رکھا ہے، تو ایک گروہ کی خاموشی مجھے سب سے زیادہ سنائی دیتی ہے: ہمارے نگہبان۔

یہ لوگ اخبارات کی شہ سرخیوں میں نہیں آتے۔ یہ وردی نہیں پہنتے۔ یہ نعرے نہیں لگاتے، نہ ہی شناخت مانگتے ہیں۔ لیکن ہر روز، ملک کے ایک ایک کونے میں، وہ بیمار والدین، ذہنی دباؤ میں مبتلا بہن بھائیوں، خصوصی ضروریات والے بچوں، یا ایسے شریکِ حیات کی دیکھ بھال کرتے ہیں جو جذباتی بوجھ تلے دبے ہوتے ہیں۔ یہ اس سرزمین کے خاموش مجاہد ہیں۔ — مائیں، بیٹیاں، بیٹے، شوہر، نرسیں، پڑوسی — جو دوسروں کے دکھ کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھاتے ہیں۔

میری ذہنی صحت کی وکالت کا سفر تقریباً ایک دہائی پہلے اُس وقت شروع ہوا، جب میں نے ڈاکٹر طحٰہ صبری کے ساتھ’’تسکین‘‘ کی بنیاد رکھی — مقصد صرف یہی تھا کہ پاکستان میں ذہنی دُکھ پر بات کرنا معمول بن جائے۔ اُس وقت فضا گھٹن زدہ تھی۔ لوگ ڈپریشن کو چھوت کی بیماری سمجھتے تھے، اور انزائٹی کو کمزوری۔ لیکن وقت کے ساتھ، تبدیلی آئی۔ دروازے کھلے۔ اور ان لوگوں میں حوصلہ پیدا ہوا جو مدد مانگنے کی جرات کرتے تھے۔لیکن ان تمام کامیابیوں کے باوجود، ایک تلخ حقیقت کبھی نہیں بدلی:نگہبان اب بھی نظرانداز ہیں۔

ہم شیزوفرینیا کے مریض لڑکے کے بارے میں سنتے ہیں، لیکن اس بہن کے بارے میں نہیں جو اُس کی خاطر اپنی نوکری چھوڑ دیتی ہے۔ ہمیں اُس ضعیف والد پر ترس آتا ہے جو ڈمنشیا کا شکار ہو چکا ہے، لیکن اُس بیٹی کا دکھ نظر نہیں آتا جو ہر رات اُس کی بے چینی کو سنبھالتی ہے۔ ہم اُس نوجوان کی بحالی پر خوش ہوتے ہیں جس نے خودکشی کی کوشش کی تھی، لیکن اُس دوست کو بھول جاتے ہیں جو اُسے علاج کیلئےلے کر گیا، اور ہفتوں تک ویٹنگ روم میں بیٹھا رہا۔

اس یومِ آزادی پر میں کہنا چاہتا ہوں:یہ نگہبان ہی پاکستان ہیں۔یہی وہ جذبۂ قربانی ہے جو ہمیں یہ وطن دے گیا۔ یہی وہ استقامت ہے جس نے ہمیں معاشی، سیاسی اور سماجی طوفانوں کے بیچ زندہ رکھا۔ اور جیسے دنیا اکثر پاکستان کو سمجھ نہیں پاتی، ویسے ہی یہ نگہبان بھی غلط سمجھے جاتے ہیں — محض فرض شناس سمجھے جاتے ہیں، حالانکہ یہ دل سے لہو بہاتے ہیں۔

لیکن صرف حوصلہ کافی نہیں ہوتا۔

پاکستان میں، ہمارے نگہبانوں کو نہ کوئی تربیت دی جاتی ہے، نہ مدد، نہ ذہنی سہارا۔ یہ سب کچھ صرف جذبے، محبت اور سماجی ذمہ داری کے تحت کرتے ہیں، لیکن تناؤ، دکھ، تھکن، اور صدمے سے اکیلے ہی نبرد آزما ہوتے ہیں۔ یہ نظام کارگر نہیں۔ جیسے ایک قوم کی صحت اُس کے عوام کی فلاح پر منحصر ہے، ویسے ہی کسی بیمار فرد کی بہتری اُس نگہبان کی طاقت پر منحصر ہے جو اُس کی دیکھ بھال کرتا ہے۔

ایک ایسے شخص کے طور پر جس نے برسوں اس ملک میں ذہنی صحت کی آگاہی، کمیونٹی پروگرامز اور پالیسی سطح پر مکالمے کے لیے کام کیا ہے، میں یہ بات پورے یقین سے کہتا ہوں: اب وقت آ گیا ہے کہ ہم نگہبانوں کو اپنے قومی بیانیے میں مرکز بنائیں۔

اس 14اگست کو، جب ہم چراغ روشن کریں، پرچم بلند کریں، تو اپنی سوچ کو بھی بلند کریں۔ ہم یہ عزم کریں کہ نگہبانوں کی تعلیم، رہنمائی اور ذہنی مدد کے لیے پلیٹ فارمز قائم کریں گے۔ ہم ایسی قومی گفتگو کا آغاز کریں گے جو ان کے تجربات کو تسلیم کرے۔ ہم اپنے ماہرینِ نفسیات سے کہیں گے کہ صرف مریض کا علاج نہ کریں — بلکہ اُس کو بھی دیکھیں جو مریض کو لے کر آیا ہے۔

تسکین میں، ہم اس کوشش کو ایک اور جدت پر مبنی قدم کے طور پر اپنانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ جیسے ہم آج ذہنی اذیت پر زیادہ کھل کر بات کرتے ہیں، ویسے ہی اب ہمیں نگہبانی کو ایک عظیم قومی خدمت سمجھنا ہوگا — اور اُس کے مطابق وسائل، ہمدردی اور ڈھانچہ فراہم کرنا ہوگا۔

کیونکہ پاکستان اُس وقت تک حقیقی طور پر آزاد نہیں ہو سکتا — نہ روح میں، نہ وقار میں — جب تک ہم ان لوگوں کو نہ پہچانیں اور نہ اٹھائیں، جن کی محبت نے ہم میں سے بہت سوں کو زندہ رکھا ہے۔

اور اُن تمام نگہبانوں کے لیے، جو نظر نہیں آتے مگر پیچھے نہیں ہٹتے: آپ کو فراموش نہیں کیا گیا۔ آپ اس وطن کی روح ہیں اور یہ آزادی آپ کی بھی ہے۔

پاکستان زندہ باد — اور نگہبان پائندہ باد۔

نوٹ:عرفان مصطفیٰ ایک عالمی سطح پر تسلیم شدہ سابق کارپوریٹ ایگزیکٹو، سماجی مصلح اور پاکستان میں ذہنی صحت کے شعور کے بانی علمبرداروں میں سے ایک ہیں۔ آپ نے ڈاکٹر طہٰ صبری کے ہمراہ ادارہ ’’تسکین‘‘کی بنیاد رکھی، اور آج بورڈ کے رکن کے طور پر ذہنی صحت کے میدان میں اپنا فعال کردار جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پاکستان کے نوجوانوں، بزرگوں اور دیکھ بھال کرنے والوں کے لیے آواز بلند کرنا آپ کی زندگی کا مشن ہے۔

تازہ ترین