مطالعہ پاکستان، یہ وہ کتاب ہے جسے ہر نام نہاد دانشور ہدفِ تنقید بناتا ہے۔ کہا جاتا تھا کہ یہ محض ایک نصابی کتاب نہیں بلکہ نوجوان طلبہ کیلئے ذہن سازی کا ایک ہتھیار ہے، اور اس میں لکھی ہوئی تاریخ حقیقت سے کوسوں دور ہے۔ میں نے بھی ایک عام طالب علم کی طرح یہ کتاب پڑھی اور اس میں لکھی ہر سطر کو سچ مانا۔ اس کتاب کے ان صفحات پر لکھی جنگوں کی کہانیاں، قربانیوں کے قصے اور قوم کے اتحاد کی مثالیں، یہ سب میرے لیے ایمان کا حصہ تھیں۔ لیکن جیسے ہی کالج سے نکل کر دانشوروں کی محفلوں میں بیٹھا انکی باتیں سنیں اور انکی کتابیں پڑھیں، تو ایسا لگا جیسے میرے یقین کی بنیادیں ہل رہی ہیں۔وہ کہتے تھے کہ 1965کی جنگ ہم جیتے نہیں، ہارے تھے۔ ہماری فوج دشمن کے آگے ٹک نہ سکی، عوام اور فوج ایک نہیں تھے، اور دفاع کا بجٹ محض کرپشن کی نذر ہوجاتا ہے۔ ہر محفل میں نئے الزامات، ہر کتاب میں ذہن میں ڈالنے کیلئے نئے وسوسے۔میں سوچتا رہا ایک استاد شاید غلط پڑھا سکتا ہے، لیکن ایک باپ؟ نہیں!
مجھے مطالعہ پاکستان میرے والد نے پڑھائی تھی۔ وہ محض الفاظ نہیں پڑھاتے تھے، وہ تاریخ کو جیتے تھے۔ انکے ہاتھ میں کتاب ہوتی تھی اورآنکھوں میں فخر اور لہجے میں یقین۔ جب وہ 65 کی جنگ کا ذکر کرتے تو انکی آواز میں وہی جوش آ جاتا جیسے وہ خود مورچے میں کھڑے ہوں۔ ایک باپ اپنے بیٹے کو جھوٹ نہیں پڑھاتا، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اگر بیٹے کا یقین ٹوٹ گیا تو نسلیں برباد ہو جائیں گی۔اس لیے میرے دل میں ہمیشہ ایک جنگ چلتی رہی ، مطالعہ پاکستان کا یقین اور دانشوروں کا شک۔پھر آیا مئی 2025 کا وہ وقت۔6 اور 7 مئی کی درمیانی رات، ’’دشمن نے رات کی تاریکی میں پاکستان پر وار کیا۔‘‘شاید بھارت کو لگا تھا کہ پاکستان کمزور ہو چکا ہے۔ ہمارے دلوں میں تقسیم ہے، ہمارے گھروں اور مورچوں کے درمیان دیوار کھڑی ہو چکی ہے۔ شاید اسےلگا کہ عوام فوج سے کٹ چکے ہیں اور دشمن کو خوش آمدید کہیں گے۔ لیکن وہ بھول گئے کہ یہ قوم ہے’’ہجوم‘‘نہیں۔
اس رات جب خبر آئی کہ دشمن نے حملہ کیا ہے، تو پورا ملک ایک لمحے میں بدل گیا۔ شہروں میں، دیہات میں، گلی کوچوں میں ایک ہی صدا تھی،’’ہمارے گھر پر حملہ ہوا ہے!‘‘۔ ہر شخص اپنی بساط کے مطابق مورچے میں تھا، کوئی بندوق لے کر، کوئی سوشل میڈیا پر دشمن کے جھوٹ کا توڑ کر کے، کوئی دعاؤں میں ہاتھ اٹھا کر۔شیر دل جوانوں نے چند گھنٹوں میں دشمن کے6طیارے زمیں بوس کر دیے، بھارتی مورچوں کی جانب سے جنگ روکنے کیلئے سفید جھنڈے لہرانا شروع ہو گئے۔بھارتی ڈرونز جب سرحد پار کر کے ہماری آبادیوں کی طرف بڑھے تو پاک فوج کے ساتھ عوام تھے جنہوں نے اپنے ہاتھوں سے انکو مار گرایا۔ وہ مناظراب تاریخ کے اوراق میں نقش ہیں، گاؤں کے لڑکے، شہر کی خواتین، بوڑھے اور جوان، سب ایک ہی صف میں۔اس دن مجھے اپنے والد کا جملہ یاد آیا:’’بیٹا! 65 کی جنگ فوج اور قوم نے ملکر جیتی تھی‘‘۔اُس دن میں نے یہ بات اپنی آنکھوں سے سچ ہوتے دیکھی۔سرحد پر کھڑا سپاہی، آسمان میں دشمن کو گرانے والا پائلٹ، یا سوشل میڈیا پر بھارتی پروپیگنڈا کا مقابلہ کرنے والا نوجوان، اس دن سب ایک ہی رنگ میں رنگے تھے، سب پاکستانی تھے۔ کسی نے پوچھا نہیں کہ تم کہاں کے ہو یا کونسی بولتے ہو۔ بس ایک ہی پہچان تھی سب پاکستانی ہیں۔پھر آئی 10 مئی ، فجر کی نماز کے بعد آپریشن بنیان المرصوص کا آغاز ہوا۔ گھروں میں موجود عوام، سوشل میڈیا واریئرز ہوں یا میڈیا کے ہمارے سپاہی سب یکجا تھے۔اس جنگ نے نہ صرف دشمن کو شکست دی، بلکہ دلوں میں موجود شکوک وشبہات کو دفن کر دیا۔ پراپیگنڈے کی دھند چھٹ گئی۔ وہ دانشورانہ دلیلیں جو برسوں میرے ذہن میں بادل کی طرح تیرتی رہیں، اس دن سورج کی روشنی نے سب صاف کر دیا۔اس بار دنیا نے بھی دیکھا۔ 2025 کی اس جنگ میں سپہ سالار فیلڈ مارشل عاصم منیر اور وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں ہمارے جوانوں نے دنیا کو دکھا دیا کہ پاکستان ایک ناقابلِ شکست قوم ہے۔ آج ہمارا پاسپورٹ تنزلی کی نہیں بلکہ عزت کی طرف بڑھ رہا ہے، اور پاکستانی جہاں بھی ہیں سر اٹھا کر چلتے ہیں۔یہ سب کچھ میں نے خود دیکھا۔ یہ کوئی دانشور کی لکھی ہوئی تاریخ نہیں، یہ وہ تاریخ ہے جس کا میں گواہ ہوں۔ آج اس نسل کو کوئی’’کنفیوز‘‘ نہیں کر سکتا، میں اپنے بیٹے کو فخر سے یہ مطالعہ پاکستان پڑھاؤں گا۔ جس میں معرکہ حق کے باب کا اضافہ ہو چکا ہوگا اور جب وہ مجھ سے پوچھے گا کہ ابو، آپ کو کیسے پتہ کہ ہم جیتے تھے؟ تو میں کہوں گا:’’بیٹا، یہ میں نے دیکھا ہے، یہ میرے زمانے کی کہانی ہے۔‘‘