(گزشتہ سے پیوستہ)
وائٹ ہاؤس میں اُس وقت سب کی نگاہیں اُس دوپہر کے کھانے پر مرکوز تھیں جب فیلڈ مارشل عاصم منیر صدر ٹرمپ کے مہمان تھے۔ میڈیا اور سفارتی حلقوں میں قیاس آرائیاں جاری تھیں کہ انکی گفتگو کا محور صرف بھارت اور پاکستان جنگ تھی یا خطے کے دیگر حساس معاملات بھی۔ میں فوری طور پر اس نتیجے پر پہنچا اور اس بات کا میں نے برملا مختلف انٹرویوز میں اظہار بھی کیا کہ میرے نزدیک ایران کا اس ملاقات میں ایک اہم موضوع بننا فطری امرتھا۔ اسکا اندازہ میں نے اپنے ذاتی تجربے سے لگایا۔مجھے بخوبی یاد ہے کہ جب میں وزیرِ خارجہ تھا تو ایران کے سُپریم نیشنل سیکورٹی کونسل کے سیکرٹری، علی لاریجانی، خصوصی طور پر مجھ سے ملنے آئے۔ انہوں نے مُجھے کہا کہ چونکہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات بہت قریبی ہیں، ہم ایران کی سول نیو کلیئر انرجی کے معاملات میں مدد کریں۔ چار گھنٹے کی طویل ملاقات میں ہم دونوں نے ایک مسودّہ تیار کیا اور مجھے لا ریجانی صاحب نے کہا کہ میں یہ پریذیڈنٹ بُش تک پہنچا دوں۔ میں واشنگٹن گیا اور میں نے یہ مسودّہ اُس وقت کی امریکی وزیر خارجہ، کونڈولیزا رائس تک پہنچایا تاکہ وہ صدر بُش کو دیدیں۔ کونڈولیزا رائس نے مجھے کئی مرتبہ اپنے ایرانی ہم منصب منو چہر مُتقّی کیلئے امریکی پیغامات بھی دیئے۔ حال ہی میں مجھے دو باتوں پر خوشگوار حیرت ہوئی، ایک یہ کہ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کُچھ دن قبل تصدیق کی کہ ایران کیساتھ مذاکرات کے سلسلے میں پاکستان کی مدد کا موضوع فیلڈ مارشل عاصم منیر کیساتھ زیر بحث آیا اور دوسرا یہ کہ اُسی ہفتے علی لاریجانی کو دوبارہ اسی عہدے پر تعینات کر دیا گیا ہے، جسکا مطلب میں یہ سمجھ رہا ہوں کہ ایران ماضی کی طرح امریکہ کیساتھ جوہری معاملات میں بات چیت کرنا چاہتا ہے اور پاکستان کو اس کیلئے بہترین ذریعہ سمجھتا ہے۔
کیوں کہ میں نے فارن آفس کی پانچ سال سربراہی کی ہے، بہت سی جو حالیہ پیش رفت ہوئی ہے اُس میں مُجھے پسِ پُشت فارن آفس کا رول بھی واضح نظر آ رہا ہے۔حالیہ واقعات نے یہ ثابت کیا کہ ایران کے علاوہ، وسطی ایشیا میںبھی پاکستان کا کردار اب اہم ہے۔ جنگ کے کچھ دن بعد فیلڈ مارشل عاصم منیر کاجنرل مائیکل ای۔ کوریلا (کمانڈر یو ایس سینٹکام) قازقستان، کرغزستان، تاجکستان اور ازبکستان کے فوجی سربراہان کے اجلاس میں مدعوکرنا ایک اہم واقعہ تھا۔ یہ تمام وسطی ایشیائی ریاستیں افغانستان سے متصل سرحد رکھتی ہیں۔ اس اجلاس میں وسطی ایشیا میں استحکام اور انسدادِ دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان کے کردار کی اہمیت بین الاقوامی اور امریکی قیادت پر مزید واضح ہو گئی ہے اور یہ کہ بھارت اس حوالے سےبھی ان علاقوں میں غیر مؤثر ہے۔
اخلاقی پہلو
پاکستان نے عسکری برتری کیساتھ اخلاقی میدان میں بھی مضبوط موقف اپنایا۔ پاکستان نے سیکورٹی کونسل میں بھر پور اندازمیں غزہ اورایران پرحملوں کی شدید مذمت کی۔ جبکہ بھارت پوری ترقی پذیر دنیا میں واحد ملک تھا جس نے اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو کی بربریت کی حمایت کی۔ اس بات نےبھی بھارت کو دنیا میں مزید تنہا کر دیا اور پاکستان کے وقار میں اضافہ کیا۔
بھارت کی سب سے بڑی غلطی ایک ایٹمی ملک ہوتے ہوئے دوسرے ایٹمی ملک پرحملہ کرنا تھی۔ 1962ء کے کیوبن میزائل بحران (Cuban missile crisis) کے بعد یہ مسلمہ اصول رہا کہ ایک ایٹمی طاقت دوسری ایٹمی طاقت پر حملہ نہیں کریگی۔ کیونکہ اسکے ممکنہ نتائج اتنے ہولناک ہو سکتے ہیں جن کاتصورکرنابھی مشکل ہے۔ اسکے باعث بھارت مزید عالمی تنہائی کاشکارہو گیا۔ اس پر طُرّہ یہ اعلان کہ جب بھی بھارت پر دہشت گردوں نے حملہ کیا تووہ فوری طورپرپاکستان پر حملہ کر دیگا اور یہ کہ اس پالیسی کو ’’نیو نارمل‘‘سمجھا جائے۔ یعنی اگر چار دہشت گرد بھارت اور پاکستان کو لڑانا چاہیں تو وہ آسانی سے یہ کام انجام دے سکتے ہیں ۔ جسکے نتیجے میں برصغیر کے پونے دو ارب انسانوں کی زندگیاں محض چار دہشت گردوں کے رحم و کرم پر آ گئیں۔ اس بات نے بھارت کی بین الاقوامی طور پر اخلاقی ساکھ کو بہت نقصان پہنچایا اور پاکستانی دفتر خارجہ کے نسبتاً نپے تلے بیانات نے پاکستان کے ایک ذمہ دارانہ ریاست ہونے کے تاثر کو مزید تقویت دی۔
کمیونیکیشنز کی جنگ اور میڈیا کا محاذ
پاکستان نے اپنے تمام دعووں کےفوری طورپر ثبوت پیش کئے۔ جس میں آئی ایس پی آر کے علاوہ سب سے موثر ایئر وائس مارشل اورنگ زیب احمد کی جانب سے قومی اوربین الاقوامی میڈیا کے سامنے پاور پوائنٹ پریزنٹیشن تھی ۔ جس میں بھارتی پائلٹوں کی وائر لیس کمیونیکیشن کے ذریعے گفتگو بھی سنوائی گئی۔جس کے نتیجے میں پاک فضائیہ کی پیشہ ورانہ صلاحیت کی مزیددھاک بیٹھ گئی اور مؤثر میڈیا کارکردگی نے عالمی رائے عامہ کو متاثر کیا اور بھارت کے بیانیے کو پس منظر میں دھکیل دیا۔
اب آئیے بھارت اور پاکستان کےالیکٹرونک میڈیاکےتقابل کی طرف۔ کسی بھی جنگ میں میڈیا کی طرف سے حُب الوطنی کا مظاہرہ قابلِ فہم ہے لیکن پاکستان کے کسی میڈیا چینل نے نہیں کہا کہ بھارت کے ٹکڑے ٹکڑے کر دینے چاہئیںاوراس کےعوام کو بھوک اور پیاس سے مار دینا چاہئے اور نہ یہ کہاکہ پاکستان نے دہلی،بمبئی اورکلکتہ پر قبضہ کرلیا یا انکو نذرِ آتش کردیا ہے۔ لیکن بھارتی میڈیا نے خاکم بدہن خیالوں خیالوں میں پاکستان کے بڑے شہروں پر قبضہ کر کے انہیں نذرِآتش بھی کردیا تھا۔ بعد میں ایک آدھ اینکر نے تو اپنی عزت بچانےکیلئے معافی مانگ لی اور دوسرےبھارتی اینکروں کی شکل قابل ِدید تھی۔ نتیجہ اس کایہ نکلا کہ لندن سے نکلنے والے دنیا کے ممتاز ترین جریدوں میں سے ایک جریدے ’’ دی اکانومسٹ‘ کو تو یہاں تک کہنا پڑا کہ:Indian broadcast media wage war on their audience یہ چار روزہ جنگ اس حقیقت کا ثبوت ہے کہ عسکری مہارت اور سفارتی حکمتِ عملی کے امتزاج سے پاکستان نے نہ صرف اپنے دفاع کو یقینی بنا یا بلکہ عالمی سطح پر اپنا اثر و رسوخ بھی بڑھا یا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس کامیابی کو اندرونی معاشی و سیاسی استحکام میں بدل سکتے ہیں یا نہیں۔