دنیا کی تاریخ میں بہت سی ریاستیں اور ملک وجود میں آئے اور بہت سے مٹ گئے۔ کیونکہ خالقِ کائنات نے اپنی دیگر تخلیقات کی طرح کرئہ ارض تخلیق کیا تھا۔ریاستیں اور ممالک نہیں۔ یہ تو انسان کی اپنی تخلیق کردہ اختراعات ہیں جن کا عقیدے یا نظریے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اس تخلیق میں سب سے بڑی وجہ انتظامی او رمعاشی مجبوریاں ہوتی ہیں۔ البتہ کسی ریاست کے قائم ہو جانے کے بعد اس کی فلاح و بہبود اور بقا اس کا سب سے بڑا نظریہ ہوتا ہے یہ ایک نارمل ریاست کی نشانی ہے۔ جس میں مذہبی اور دیگرمعاشی نظریات وقت کی ضرورت کے تحت بدلتے رہتے ہیں۔
مثال کے طور پر ایران ایک قدیم ریاست ہے جس میںکبھی آتش پرستی ان کا مذہب تھا اور بعد میں اسلام ہوگیا اسی طرح ہندوستان میں کبھی ہندوراج رہا کبھی اشوکِ اعظم کے زمانے میں وہ بدھ مت کا گہوارہ بن گیا۔ پھر مسلمانوں اور انگریزوں نے صدیوں تک اس پر حکومت کی ۔یہی حال چین اور رومن ایمپائر کا تھا کہ مذہبی اور معاشی نظریات کے بدلنے کے باوجود ان ریاستوں کا وجود ابھی تک باقی ہے۔ کیونکہ وہ معاشرتی بہبود ، عوامی حقوق اور ضروریات کے معروضی تقاضے پورے کرتی رہیں۔ جہاں اس سے انحراف کیا گیا تو عموماََ ریاستی ڈھانچے کی جغرافیائی حیثیت کو بدلے بغیر وہاں حکومتیں تبدیل ہوتی رہیں۔پاکستان کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔ یہاں ریاست کو دوسری عام ریاستوں کے آفاقی اصولوں کے مطابق ایک نارمل ریاست بنانے کی بجائے مختلف نظریات ،عقائد اور ترجیحات کاحامل بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔ اور ریاست اپنی اصلی شکل کی بجائے نظریاتی دھند میںکھو کر رہ گئی ہے۔ اسی نظریاتی کشمکش نے صرف 23سال کے بعد ہی اس ملک کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ اس نظریاتی کنفیوژن نے آج تک ہمیں اس بری طرح سےاپنی لپیٹ میںلے رکھا ہے کہ 78سال گزرنے کے باوجود ہمیں اپنی ریاست کے مستقبل کے خدوخال واضح طور پر دکھائی نہیں دے رہے۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ دنیا پر جو مختلف ادوار گزرے ہیں ان میں مذہبی ریاستوں کا دور بھی گزرا ہے۔ لیکن اس دوران دوسرے مذاہب کے ساتھ اور اپنے مذہب کے اندر گرو ہی کشمکش کی وجہ سے انسانی تاریخ میں جو خون خرابہ اور فسادات ہوئے ہیں انہوں نے ہی حکمرانوں اور دانشوروں کو مجبور کیا کہ وہ مذہب کو ریاست کی بنیاد نہ بنائیں بلکہ ریاست کا تصّور ہر انسان کی، چاہے اس کا مذہب ، فرقہ یا نظریہ کچھ بھی ہو ،فلاح و بہبود پر استوار کیا جائے۔ انسانوں کے معاشرے میں انسانوں کیلئے اقلیت کا لفظ بذاتِ خود انسانیت کی تذلیل ہے۔ جہاں انسانوں کی اکثریت ہو وہاں اقلیت کےلفظ کا اطلاق صرف دوسرے جانوروں پر کیا جا سکتا ہے جو اقلیّت میں ہوں۔ اسی طرح جنگلوں میں جہاں دوسرے جانور یا حیوان اکثریت میں ہوتے ہیں، صرف وہاں ہی انسان اقلیت میںہوتا ہے۔ وہ تمام انسان جن کی ضروریات اور جذبات ایک جیسے ہوتے ہیں انہیں ، مذہبی ، لسانی یا علاقائی بنیادوں پر اقلیت قرار دینا حیران کن ہے۔
دنیا میں آج تک آنے والے تمام سیاسی نظاموں میں جمہوریت کو اسی لیے بہترین نظام تسلیم کیا جاتا ہے کہ جمہوری نظام میں کوئی اقلیت یا اکثریت نہیں ہوتی بلکہ ایک ریاست میںرہنے والے تمام انسان برابر ہوتے ہیںجنکی بلا لحاظ مذہب و رنگ ونسل ، فلاح و بہبود اس ریاست کا فرض ِ اوّلین ہے۔ اگر مذہب حقیقی طور پر کسی ریاست کی بنیاد ہوتا تو آج دنیا میں سو سے زیادہ عیسائی اور پچاس سے زائد مسلم ممالک نہ ہوتے اور نہ کبھی ہم مذاہب ممالک میں کوئی جنگ و جدل ہوتی ۔ لیکن دنیا کی تاریخ کا منظر نامہ اس سے بالکل مختلف ہے۔
دنیا میں سب سے زیادہ خوفناک جنگیں ایک ہی مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان ہوئیں۔ ماضی قریب میں ہونے والی دونوں عالمی جنگوں میں متحارب ممالک کی اکثریت عیسائی ممالک کی تھی۔ جنگ ِ کربلا اور تخت نشینی کی جنگیں مسلم ممالک میں ہوتی رہیں۔ ہندو تاریخ کی سب سے بڑی جنگ مہا بھارت میں متحارب گروہ نہ صرف ایک ہی مذہب سے تعلق رکھتے تھے بلکہ ایک ہی خاندان کے افراد تھے۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ جن نظریاتی واہموں کو تارریخ نے رد کر دیا ہے ۔ انہیں دہرانے کی بجائے ہم پاکستان کو ایک نارمل ریاست بنائیں۔
کیونکہ یہی ہماری بقا کا راستہ ہے۔ البتہ اس کی فلاح و بہبود اور ترقی کیلئے اسکی خامیوں کو اُجاگر کرتے رہنا بھی ہر شہری کا فرض اور حق ہے۔ چند اشعار پیشِ خدمت ہیں۔
راج اپنا ہو یا ہو بیگانہ
پا بہ زنجیر زندگانی ہے
باہر عنوان صرف بدلے ہیں
لیکن اندر وہی کہانی ہے
مفلسی بھوک اور بے کاری
ان کے پنجے میں قوم ہے ساری
جب لٹیروں کی ہوگی بربادی
پھر منائیں گے جشنِ آزادی