میری نظر بیتابی سے اس پردے پر جمی ہوئی تھی جسکے عقب سے ریاست بہاولپور کے آخری نواب، صادق محمدخان عباسی پنجم کی صاحبزادی کو نمودار ہونا تھا۔ یار لوگوں کو بتاتا چلوں کہ یہ وہی نواب ہیں جنہوں نے ہندوستان کی تمام تر دلفریب پیشکشوں کو ٹھکرا کر اپنی ریاست کو پاکستان میں ضم کر دیا تھا۔ آپ نے نہ صرف بہاولپور کی تعمیر و ترقی کیلئے کلیدی کردار ادا کیا بلکہ تقسیم کے بعد نوزائیدہ مملکتِ پاکستان کو بھی اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کیلئے بھرپور مدد کی۔ روایات کے مطابق حکومتِ پاکستان کے ملازمین کی تنخواہیں ابتدائی ایام میں ریاست بہاولپور کے خزانے سے ہی ادا کی جاتی رہیں۔ ریاست کی فوج کو بھی پاکستانی فوج میں ضم کر دیا گیا۔ ریاست کے سونے کے ذخائر نو قائم شدہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے سپرد کر دیے گئے تاکہ کرنسی چھاپی جا سکے۔ پرل کانٹی نینٹل لاہور اور میریٹ اسلام آباد میں کھڑی بیش قیمت کیڈلک اور رولز رائس گاڑیاں بھی ہمیں ان تحفوں کی یاد دلاتی ہیں جو نواب صاحب نے قائداعظم کو انکے سرکاری استعمال کیلئے دیئے۔ نواب صاحب نے نوزائیدہ مملکت کی ایئر لائن کی بنیاد رکھنے کیلئے بھی مالی معاونت فراہم کی، اور اس نوعیت کی اور بہت سی نوازشات۔ قیام پاکستان کے بعد کسی فردِ واحد کے ملک پر اتنے احسانات نہیں جتنے نواب صاحب کے ہیں۔ اس حقیقت کا اعتراف تو خود قائد اعظم نے انہیں محسنِ پاکستان کا خطاب دیکر کیا۔
انہی نواب صاحب کی بابت میرے علم میں آیا تھا کہ انکی سب سے چھوٹی بیٹی شہزادی زہرہ عباسی، چھیاسی سال کی عمر میں نہ صرف حیات ہیں بلکہ احمد پور شرقیہ کے قصبہ میں نواب صاحب کے آخری دور کی قیام گاہ، صادق گڑھ پیلس کے قریب ہی رہائش پذیر ہیں۔ میرے لئے یہ خبر غیر متوقع تھی اور انتہائی خوشگوار بھی۔ غیر متوقع اس لئے کہ نواب صاحب کو تو رخصت ہوئے لگ بھگ ساٹھ سال ہوا چاہتے ہیں اور اب ہمارا واسطہ ان کے پوتوں اور پڑپوتوں سے پڑتا ہے۔ ان حالات میں نواب صاحب کی اپنی اولاد کے حیات ہونے کے امکانات تو نہ ہونے کے برابر تھے۔ ایسے میں یہ خبر ملے کہ نواب صاحب کی صاحبزادی حیات ہیں تو میں ملنےکیلئے بیتاب کیونکر نہ ہوتا!پیشگی اطلاع کے بعد مقررہ دن پر میں ان کے گھر جا پہنچا۔ یہ حویلی نما گھر اب مرمت کا طالب نظر آتا تھا۔ ان کے بیٹے محسن عباسی صاحب نے ہمیں پرانے فرنیچر سے مزین ایک سادہ سی بیٹھک میں جا بٹھایا۔ ایک جانب ایک پرانا ٹی وی پلاسٹک کی چادر اوڑھے دھرا تھا۔ دیواروں پر آویزاں تصویریں ریاست کے دنوں کی یاد دلا رہی تھیں۔ انتظار کی گھڑیاں تمام ہوئیں، پردہ سرکا اور شہزادی صاحبہ اپنے صاحبزادے اور پوتے کی ہمراہی میں داخل ہوئیں، جنہوں نے انہیں دونوں اطراف سے سنبھال رکھا تھا۔ اجلے کپڑوں میں ملبوس، ضعف کے دروازوں پر دستک دیتی، شہزادی صاحبہ کے چہرے پر اب بھی ایک وقار تھا۔ میں نے کھڑے ہو کر انکا استقبال کیا۔ وہ میرے قریب ہی نشست افروز ہو گئیں۔ انہوں نے اظہارِ سخن کیلئےسرائیکی کا سہارا لیا۔ بتانے لگیں کہ سب سے چھوٹی اولاد ہونے کے ناتے نواب صاحب ان سے خصوصی شفقت فرماتے تھے اور ’نِکی‘ کے نام سے پکارتے تھے۔ کہنے لگیں نواب صاحب ہمیں ریشم، ململ، بنارسی، کمخواب اور جارجٹ کے علاوہ کوئی کپڑا نہ پہننے دیتے تھے۔ اور یہ کہ نواب صاحب زیادہ تر گفتگو سرائیکی میں کرنا پسند کرتے تھے، اور شہزادے شہزادیوں کو انگریزی کیساتھ ساتھ سرائیکی زبان سکھانے کیلئے بھی اتالیق مقرر کر رکھے تھے۔ دورانِ گفتگو یہ بھی پتا چلا کہ اگرچہ شہزادی صاحبہ صادق گڑھ پیلس کے پہلو میں ہی مقیم ہیں لیکن بیس سال سے زائد ہوئے وہاں نہیں گئیں۔ جب 2004ء میں آخری بار پیلس گئی تھیں تو جس قدر شکست و ریخت کا وہ شکار ہو چکا تھا، اور جیسی بیابانی کا منظر پیش کر رہا تھا، شہزادی صاحبہ اسکی تاب نہ لا کر بے ہوش ہو گئی تھیں۔ جہاں کبھی دربار سجا کرتے تھے، بگل بجا کرتے تھے، ’با ادب با ملاحظہ‘ ہوشیار کی صدائیں لگا کرتی تھیں، تہہ در تہہ خدمت گار ہاتھ باندھے کھڑے ہوتے تھے، مہمانوں کی تواضع، سائلین کی شنوائی کی جا رہی ہوتی تھی وہاں اب چمگادڑوں کا بسیرا تھا۔بیٹے سے گزر بسر کی بابت پوچھا تو بتانے لگے کہ ریاست کے دور میں تیس کنال پر محیط وہ حویلی مشیرِ خزانہ کیلئے مختص تھی، اور اب اس احاطے میں شہزادی صاحبہ کے پانچ بیٹے اپنے خاندانوں کے ساتھ مقیم تھے۔ وقفے وقفے سے اسکی تھوڑی بہت زمین بیچ دیتے تھے اور اس طرح کچھ عرصہ کا سامان ہو جاتا تھا، اور بس!انہوں نے یہ بھی بتایا کہ شہزادی صاحبہ سب سے زیادہ اس امر پر افسردہ ہوتی ہیں کہ کئی سال ہونے کو ہیں، خاندان کے دیگر افراد اب ان سے ملنے بھی نہیں آتے، گویا وہ ان کیلئے وجود ہی نہیں رکھتیں ۔ رہی سہی کسر آپس کی مقدمہ بازیوں نے پوری کر دی تھی جس نے نہ صرف خاندان کی یکجہتی اور اثر و رسوخ کو نقصان پہنچایا تھا بلکہ اسے معاشی طور پر بھی کمزور کر دیا تھا۔شہزادی صاحبہ سے گفتگو کے دوران مجھے محسوس ہوتا رہا کہ کچھ ٹھیک نہیں تھا۔ جلد ہی یہ افسوسناک حقیقت آشکار ہوئی کہ ان کی نظر تقریباً ختم ہو چکی تھی۔ خدا جانے انکے پاس علاج کے وسائل تھے بھی یا نہیں۔ بوجھل دل کے ساتھ واپسی ہوئی۔ ذہن میں یہ سوال کلبلاتا رہا کہ ایک زمانے میں انتہائی ضرورت کے وقت انکے والد نے مملکت پاکستان کو سہارا دیا تھا، کیا اب مملکت انکی ایک صاحبزادی کی اشک شوئی کا سامان بھی نہیں کر سکتی؟ اور یہ کہ جس دیس کو پروان چڑھانے میں ان کے بڑوں نے کلیدی کردار ادا کیا تھا، ہمارے نواب صاحب کی ’نِکی‘ کیا اسے ایک بار پھر دیکھنے کے قابل ہو سکیں گی؟