جارج واشنگٹن یورنیورسٹی امریکا کے نیشنل سیکورٹی آرکائیو پراجیکٹ کی درخواست پر اسرائیلی جاسوس Jonathan Polard کے بارے میں“The Jonathan Jay Pollard Espionage Case: A Damage Assessment” کے عنوان سے سی آئی اے کی جو خفیہ دستاویزات ، جو 2012ء میں پہلی بار منظر عام پر آئی تھیں، اور جس کی بازگشت ان دنوں عالمی میڈیا میں پھر گونج رہی ہے، وہ تاریخی طور پر اس امر کی تصدیق کر تی ہیں کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام 1988ء سے بہت پہلے جنرل ضیاء الحق اور ان کے دست راست آئی ایس آئی چیف جنرل اختر عبدالرحمن کی زندگی ہی میں پایہ تکمیل کو پہنچ چکا تھا۔
سی آئی اے کی خفیہ دستاویزات کے مطابق یہودی جوناتھن ، اگرچہ قانونی طور پر باقاعدہ امریکی شہری تھا اور امریکی نیوی کی انٹیلی جنس سروس میں خدمات انجام دے رہا تھا، لیکن درپردہ اسرائیل کیلئے بھی کام کرتا تھا، اور امریکی ذرائع سے حاصل ہونے والی سرکاری معلومات خفیہ طور پر اسرائیل کو فراہم کررہا تھا، جو زیادہ تر عرب ملکوں کی فوجی استعداد، اسرائیل دشمن تنظیموں اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں ہوتی تھیں۔ دستاویزات کے مطابق، جوناتھن کی مہیا کردہ معلومات کی بنیاد پر ہی اکتوبر1985ء میں اسرائیل نے تیونس میں پی ایل او کے دفاتر تباہ کیے تھے۔ افغان جنگ اور اس میں پاکستان کے کردار کے بارے میں یہ دستاویزات بتاتی ہیں کہ جولائی 1982ء میں ریگن انتظامیہ نے سی آئی اے کے سابق ڈائریکٹر جنرل Vernon Walters کو اپنے خصوصی نمائندے کے طور پر جنرل ضیاء الحق کے پاس بھیجا، اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر تشویش کا اظہار کیا۔ جنرل ضیاء نے یہ کہہ کے امریکی نمائندے کو ٹال دیا کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام پرامن مقاصد کیلئے ہے اور اس کا ایٹمی ہتھیار بنانے کا کوئی ارادہ نہیں ۔
اسی طرح 1986ء میںArms Control and Disarmament Agency کے ڈائریکٹر کینتھ ایڈل مین نے وہائٹ ہائوس کو بتایا کہ پاکستان ایٹمی ہتھیار بنانے کے قریب پہنچ چکا ہے۔ لیکن، ریگن انتظامیہ افغان جنگ کے باعث پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خلاف کوئی جارحانہ قدم اٹھانے کی پوزیشن میں نہ تھی، بلکہ یہ بھی نہیں چاہتی تھی کہ پاکستان اپنے ایٹمی پروگرام کی حساس معلومات انکے ساتھ شیئر کرے، کیونکہ یہ معلومات سامنے آنے پر ریگن انتظامیہ پر کانگریس کی طرف سے پاکستان کیخلاف فوری کارروائی کیلئے دبائو بڑھ سکتا تھا، اور اسے سوویت یونین کے خلاف افغان جنگ کیلئے امداد جاری کرنے میں مشکلات پیش آسکتی تھیں۔ تاریخی طور پر یہ وہی عرصہ ہے، جب جنرل اختر عبدالرحمن اور ان کے زیر کمان آئی ایس آئی سوویت یونین کے خلاف افغان جنگ کو فتح کی منزل تک پہنچا چکے تھے۔ مارچ1987ء کے آخری ہفتے میں، جب جنرل ضیاء نے ان کی بطور آئی ایس آئی چیف بے مثال کارکردگی اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی حفاظت کو یقینی بنانے کیلئے ان کے کلیدی کردار کے اعتراف میں ان کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے عہدے پر ترقی دینے کا اعلان کیا، تو اس سے عین پہلے امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے وہائٹ ہائوس کو واضح طور پر کہہ دیا کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام کامیابی کی منزل پر پہنچ چکا ہے۔سی آئی اے کی دستاویزات کے مطابق 12 ستمبر 1984ء کو صدر ریگن کی ہدایت پر اسلام آباد میں امریکی سفیر Hinton نے جنرل ضیاء سے ملاقات کی ، اور ان کو امریکی صدر کا ایک سر بمہر خط دیا۔ تین صفحات پر مشتمل اس خط میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر اظہار تشویش کے علاوہ امریکی صدر نے،اسرائیلی فیکٹر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، جنرل ضیاء کو خبردارکیا کہ بھارت، پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو نشانہ بنا سکتا ہے، جس طرح کہ اسرائیل نے عراق کے ایٹمی پلانٹ پر حملہ کرکے اسے تباہ کر دیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ جنرل ضیاء نے یہ خط آئی ایس آئی چیف جنرل اختردیا، اور ایٹمی پروگرام کی حفاظت کو مزید موثر بنانے کی ہدایت کی۔
اسی طرح ، نومبر1986ء میں راجستھان کے مقام پربھارت کی وسیع پیمانے پر ہونے والی’ براس ٹیک‘ فوجی مشقوں کے دوران جب پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کا خطرہ پیدا ہو گیا، تو اس ممکنہ جنگ کو روکنے میںبھی حالیہ مئی کی پاک بھارت کشیدگی کی طرح، اہم ترین عامل پاکستان کا ایٹمی طاقت ہونا ہی ثابت ہوا۔ خود بھارت کے جریدہ’’ انڈیا ٹوڈے‘‘ میں اس کی تفصیلات شائع ہو چکی ہیں۔ ان کے مطابق 21 فروری 1987ء کی صبح اچانک جنرل ضیاء کا طیارہ دہلی ائرپورٹ پر اترتا ہے۔ ان دنوں جے پور میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ میچ ہو رہا تھا، جنرل ضیا نے ائرپورٹ پر اترتے ہی کہا کہ وہ خیر سگالی کے جذبہ سے صرف پاک بھارت میچ دیکھنے آئے ہیں۔ تاہم، چنائے روانگی سے پیشتر جب وہ بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی سے ملے تو ان کے قومی سلامتی کے مشیر کی موجودگی میں بغیر کسی تمہید کے صاف صاف لفطوں میں کہہ دیا کہ اگر بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ پاکستان ایٹمی طاقت بن چکا ہے اور یہ جنگ ایٹمی جنگ میں بدل سکتی ہے۔
راجیو گاندھی اور ان کے مشیرکیلئے یہ ایک بم شیل تھا۔ ان کو یہ تو معلوم تھا کہ پاکستان ایٹمی طاقت بننے کے قریب ہے، لیکن یہ خبر نہ تھی کہ پاکستان ایٹمی طاقت بن چکا ہے۔ چنانچہ، اس کے بعد ہی جنگ کا خطرہ ٹلا اور اگلے روز جب راجیو گاندھی نے جنرل ضیاء کے اعزاز میں ڈنر دیا تو دونوں رہنمائوں نے یکساں طور پر دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کے خاتمے پر زور دیا ۔چند ہفتوں بعد مارچ میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے بھی ایک انٹرویو میں کہہ دیا کہ بھارت، پاکستان پر حملہ کرنے کی جرات نہ کرے، کیونکہ ،پاکستان اب ایک ایٹمی طاقت ہے، ا ور نہ صرف اپنا دفاع کر سکتا ہے، بلکہ آن واحد میں بھارت کو نیست ونابود کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔
سی آئی اے کی ان دستاویزات کی واضح گواہی کے بعد اب ا س میں کسی شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہی کہ جنرل ضیاء الحق اور جنرل اختر عبدالرحمان شہید کی زندگی ہی میں پاکستان مکمل طور پر ایٹمی طاقت بن چکا تھا۔ اس تناظر میں آج 17 اگست 1988ء کا دن، جہاں سوویت یونین کے خلاف عسکری تاریخ کی سب سے بڑی جنگ کے سرفروش مجاہدوں کا یوم شہادت ہے ، وہاں یہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی حفاظت کرنے اور اس کو کامیابی کی منزل تک پہنچانے والے پاکستان کے عظیم محافظوں کی یاد بھی دلاتا ہے۔