• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کا78واں یوم آزادی تزک و احتشام سے منایا گیا۔ عوام کی اس حوالے سے غیر معمولی دلچسپی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ خیبر تا گوادر ہر گلی کوچے میں پاکستانی پرچم لہراتے نظر آئے۔ دو قومی نظریہ کی بنیاد پر قائم ہونے والا پاکستان کسی ایک صوبےیا علاقے کے لوگوں نے نہیں بنایا بلکہ اس کے قیام میں خیبر سے لیکر چٹاگانگ تک کے عوام نے حصہ لیا ، کسی نے کم کسی نے بہت زیادہ ۔ اسلئے کسی صوبہ کو مطعون نہیں کیا جا سکتا کہ اس نے تحریک آزادی میں حصہ نہیں لیا۔ ہمارے ہاں کچھ دانشور کھاتے پاکستان کا ہیں لیکن گیت بھارت کے گاتے ہیں پاکستان کے خالق قائد اعظم محمد علی جناح کو انگریزوں کا ایجنٹ قرار دینے کیلئے انگریز کی دستاویزات سے مواد تلاش کرنے میں مصروف رہتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں اگر آج پاکستان قائم نہ ہوتا تو وہ نام نہاد دانشور کسی بنئے کی دکان پر جھاڑولگا رہے ہوتے۔ جو لوگ یہ طعنہ دیتے ہیں کہ پنجاب کا تحریک آزادی میں کوئی کردار نہیں وہ یا تو تاریخ سے واقف نہیں یا پھر وہ دانشورانہ منافقت کا شکار ہیں ۔ اگر تحریک آزادی میں پنجاب کا کوئی رول نہ ہوتا تو پاکستان ہی قائم نہیں ہوتا ۔پنجاب کے سپوتوں نے نہ صرف اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر کے آزادی کی شمع روشن کی ،قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں اور تختہ دار پر لٹک کر لوگوں کے دلوں سے فرنگی سامراج کا خوف ختم کیا۔ وفاقی دار الحکومت اسلام آباد کے ممتازدانشور سید اصغر حسین شاہ سبزواری ایڈووکیٹ ،جنکا بطل حریت آغا شورش کاشمیری کیساتھ اٹھنا بیٹھنا تھا ،کا تحریک آزادی پر گہرا مطالعہ ہے۔ انکے ساتھ ایک طویل نشست ہوئی انہوں نے تحریک آزادی میں پنجاب کے کردار کی نفی کرنیوالوں کوصرف دو کتبThe Disturbance in the Punjab, The Crisis in the Punjb, The State During the British Raj مطالعہ کرنے کا مشورہ دیا ہے جن میں تحریک آزادی میں پنجاب کے کردار پر تفصیل سے رو شنی ڈالی گئی ہے، تحریک آزادی میں پنجاب کے کردار سے انکار کرنے والوں کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ :بریں عقل و دانش بباید گریست تحریک کا ادنیٰ اور معمولی طالبعلم بھی اس بات سے بخوبی آگاہ ہے کہ جب 1849ء میں انگریزوں نے سکھوں کی شکست کے بعدپنجاب پر قبضہ کر لیا تو پورے صوبے میں طوائف الملوکی تھی کوئی مرکزی ادارہ نہ تھا، کوئی بڑی شخصیت نہیں تھی اعلیٰ پیمانے پر منظم تحریک چلانا ناممکن تھا پنجاب کے مقامی مسلمان جاگیردار سکھوں کے زخم خوردہ تھے اس لئے انگریزوں کے خلاف ان سے کسی اجتماعی مزاحمت کا سوال ہی پید ا نہ ہوتا تھالیکن تاریخ میں بے شمار واقعات محفوظ ہیں کہ پنجاب کے مختلف علاقوں میں مقامی سطح پر کئی قبیلوں نے انگریز کیخلاف زبردست مزاحمت کی۔سرکاری ریکارڈ کے مطابق میرٹھ اور دہلی میں انگریزوں کیخلاف علم حریت بلند کیا گیاتو پنجاب میں کئی ضلعوں میں لاتعداد گرفتاریاں ہوئیں۔ انگریز کی فو ج میں شامل مقامی سپاہیوں کو غیر مسلح کیا گیا، کئی سپاہیوں کو عبرت کے طور پر موت کے گھات اتارا گیا۔ پنجاب میں احمد خان کھرل نے انگریز کے خلاف بغاوت کی اوراس اہم لڑائی میں جوئیہ قبیلے نے ان کا ساتھ دیا ۔کئی حریت پسندوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے سقوط دہلی کے بعد انگریزحکومت پنجاب میں مستحکم ہوئی لیکن ہندوستان کے علاوہ پنجاب کے دیگر مقامات پر مقامی طور پر شورش برپا رہی۔

1857ء کے بعد پنجاب بلکہ پورے ہندوستان میں کوئی ہمہ گیر تحریک نہ پنپ سکی لیکن ہندوستانی پروانے آزادی کی شمع پر جلتے اوراپنی جانیں قربان کرتے رہے ۔ پنجاب بھی اس معاملے میں کسی سے پیچھے نہ رہا۔ پنجاب میں علماء اور عام لوگوں نے انگریز کیخلاف جدوجہد جاری رکھی، انگریزوں کے استبدادی قانون کی خلاف ورزی کرکے لوگوں نے شمع آزادی کو روشن رکھا اور مزاحمت کا پرچم سربلند کیا ۔لاہور میں ممتاز عالم دین شیخ التفسیرمولانا احمد علی ؒ سات بار قید ہوئے لیکن انہوں نے مزاحمت کا راستہ ترک نہیں کیا ۔پنجاب میں خاکسار تحریک نے جنم لیا ،مجلس احرار اسلام کا قیام عمل میں آیا انکا مطمح نظر آزادی ہی تھا۔ 1935ء میں مسجد شہید گنج کا واقعہ پیش آیا۔ درحقیقت یہ تحریک آزادی کا حصہ تھا۔1940ء میں انگریز حکومت کیساتھ خاکساروں کا تصادم ہوا، سینکڑوں خاکسار شہید ہوگئے انکا نصب العین بھی آزادی تھا۔سب سے بڑھ کر 1919ء میں جلیانوالہ والا باغ میں سینکڑوں پنجابیوں کو بربریت کا نشانہ بنایا گیا، ڈائر کے بارے میں کہا جاتا ہے وہ جلیانوالہ باغ کے قتل عام کو پورے پنجاب کیلئے مثالی بنانا چاہتا تھا۔1857ء کے بعد ہندوستان اور پنجاب میں لوگ خاموش نہیں بیٹھے بلکہ کسی نہ کسی رنگ میں جدو جہد جاری رکھی،اسی اثناء میں کانگریس اور مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا انکا اصل نصب العین آزادی تھا۔پنجاب میں کانگریس کو خاصی پذیرائی ملی مسلم لیگ کو مقبول ہونے میں بہت وقت لگا۔مسلم لیگ کی برتری 1946ءمیں تسلیم کی گئی۔ پنجاب میںتحریک آزادی کی سرخی احرار اور خاکسار کے خون سے لکھی گئی۔1928ء میں سائمن کمیشن لاہور آیا تو قائد اعظم کے اعلان مقاطعہ کے باوجود مسلم لیگ کے ایک حصہ نے اسکا استقبال کیا لیکن بڑی سطح پر عمومی احتجاج بھی ہوا،ہزاروں لوگوں نے کمیشن کی آمد پر مظاہرہ کیا جو پر تشدد بھی تھا، کانگریسی رہنما لالہ راجپوت رائے اس میں زخمی ہوئے اور چل بسے ۔پنجاب میں مولانا احمد علی، ؒ چوہدری افضل حقؒ ، سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ ، مولاناحبیب الرحمنؒ، شیخ حسام الدینؒ ، مولانا تاج دین انصاریؒ ، مولانا مظہر علی اظہر، سید دائود غزنوی ، میاں افتخار الدین جیسے اکابر نے مزاحمت کی قابل فخر مثالیں قائم کی۔سب سے بڑھ کر ظفر علی خانؒ کی نظمیں اور کلام اقبال ؒ نے پورے ہندوستا ن میں آزادی کی ایسی روح پھونکی جس کی مثال نہیں ملتی۔

بھگت سنگھ شمع آزادی کا پروانہ تھا جس نے پھانسی کے پھندے کو چومتے ہوئے آزادی کا نعرہ بلند کیا، مولانا ظفر علی خان ؒ تحریک آزادی کے مثالی پیکر تھے، آغا شورش کاشمیریؒ نے 10سال کا سرمایہ حیات آزادی کی خاطر قید و بند کی نذر کیا، ان کے علاوہ بے شمار لوگوں نے آزادی کا نغمہ گایا اور انگریز کی قائم کردہ عدالتوں اور ماورائے عدالت سزائیں بھگتیں۔ لہٰذا یہ کہنا کہ تحریک آزادی میں پنجاب کا کوئی کردار نہیں تاریخ سے ناواقفیت کے سوا کچھ نہیں۔

تازہ ترین