• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر روتھ فاؤ... اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جانا

بعض شخصیات ایسی ہوتی ہیں کہ انکے اظہار کیلئے لفظ و معنی اپنی کم مائیگی کے احساس سے شرمندہ رہ جاتے ہیں، انکی ذات اتنی روشن اور تابناک ہوتی ہے کہ نظر مکمل مشاہدہ کرنے سے قاصر رہ جاتی ہے۔ ڈاکٹر روتھ فاؤ ایسی ہی شخصیت کا نام ہے۔

انکی کتاب To light a candle and keep it burning میں انکے ایک پیراگراف کا ٹکڑا پڑھ کر اندازہ ہوا کہ دل میں جب خاص جوار بھاٹا اٹھتا ہے تو آرائش صحن چمن لمحہ بھر میں خس وخاشاک لگنے لگتا ہے اور دنیا بدل جاتی ہے۔ وہ لکھتی ہیں کہ میری میڈیکل کی تعلیم مکمل ہوگئی تھی اور ڈرائیونگ لائسنس بھی ملا تھا۔ ایک دن دوستوں کی محفل میں اس بات پر بحث چلی کہ کون سی گاڑی خرید لی جائے، Volkswagen یا Opal اور اسکا رنگ کیا ہو اورنج یا بھورا فاختہ رنگ۔ اچانک میرے ذہن میں ایک خیال کوند گیا، کیا یہی زندگی ہے کہ پیسے بچاؤ، گاڑیاں خریدو اور پھر مزید پیسے بچاؤ اور گاڑیاں تبدیل کرو۔ میں اس طرز کی کشمکش حیات سے نکلنا چاہتی تھی جلد یا بدیر اور پھر ایسا ہی ہوا۔

روتھ فاؤ نے بچپن میں پڑھی گئی ایک کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ اسے یہ بھی یاد نہیں کہ اسکا مصنف کون تھا۔ اسکا کہنا ہے کہ بیس سال کی عمر تک بھی اس کیلئے متذکرہ کتاب کے مندرجات ناقابل فہم رہے حتیٰ کہ اسکے والدین بھی اس کتاب کو پڑھنے سے منع کرتے تھے۔ وہ لکھتی ہیں کہ اس کتاب کے آخری باب نےانکے ذہن پر گہرا اثر ڈالا۔

روتھ فاؤ کے مطابق اس کتاب کے آخری باب میں ایک قید خانے کا ذکر تھا جسکے ایک وارڈن کادل قیدیوں کی مفلوک الحالی اور بے بسی دیکھ کر پژ مردہ ہو جاتا تھا اور بے قراری حد سے زیادہ بڑھ جاتی تھی۔ ایک دن وارڈن چپ چاپ غائب ہو جاتا ہے اور کئی ماہ بعد جب اسکو نہایت خستہ حالت میں ہڈیوں کے ڈھانچے کی شکل میں قید خانہ کے کسی اہلکار نے پہچانا تو اسکا دوست نیا وارڈن اسکو دیکھ کر ششدر رہ گیا۔ روتھ فاؤ لکھتی ہیں کہ اس خستہ تن شخص کے آخری الفاظ نے اسکے دل میںتلاطم پیدا کیا۔ الفاظ کچھ یوں تھے It is much more difficult to stand by and look on than being there and suffering together یعنی مختصراً یہ کہ تماشا دیکھنا زیادہ تکلیف دہ ہے بجائے اسکے کہ دکھ اور تکلیف ساتھ مل کر جھیلا جائے۔

مہاتما گوتم بدھ نے بھی نروان پانے کے بعد یہی کہا تھا روتھ فاؤ کی نروان پانے کی جگہ کراچی کے میکلوڈ روڈ کا وہ خاص علاقہ تھا جہاں جذام سے گلے سڑے زندہ انسان سسک رہے تھے جن پر نظر ڈالنے والا کوئی نہیں تھا۔ اس گندی گلی (Slum) کی جھونپڑیوں اور انکے رہائشی کوڑھ کے مریضوں کی حالت زار کا پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ روتھ فاؤ لکھتی ہیں کہ یہاں مفلسی سے بھی نچلی سطح پر گرے پڑے مریض جنکے ہاتھ پاؤں جذام سے جھڑ چکے تھے پٹ سن کے ٹاٹ ، بانس کی ڈنڈیوں اور گتے کے ڈبوں سے بنے جھونپڑوں میں ٹھنسے ہوئے تھے۔ وہ چاروں طرف سے گندگی، غلاظت اور سیوریج کے پانی میں نالی کے کیڑوں کی طرح پڑے تھے۔ پھر اسکے بعد ایک طویل جدوجہد کی کہانی ہے جسکے ہم سب شاہد ہیں کہ کس طرح 1960 میں کراچی کی جھونپڑیوں سے آغاز کیا گیا پروگرام آج کس مقام پر ہے۔

ڈاکٹر روتھ فاؤ نے صرف شہری زندگی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ پہاڑ، صحرا، میدان کوئی ایسا علاقہ نہیں رہا جہاں انکے قدم نہ پڑے ہوں۔ وہ اسکردو، استور اور گلگت کے دور افتادہ گاؤں گاؤں پہنچ گئی اور مریضوں کی داد رسی کی۔ یاغستان تک گئی جہاں انگریزوں کو گلگت ایجنسی قائم کرنے کے بعد قدم رکھنے کی جرات نہیں ہوئی تھی۔ بلوچستان، افغانستان شورش زدہ علاقوں سے لیکر سندھ کے ساحلی علاقوں تک وہ آبلہ پا بے تابی کے ساتھ ہر کوڑھ کے مریض کے پاس گئیں، انکے کندھے تھپتھپائے اور ڈوبتی امیدوں کو زندگی کے نئے رمق سے آشنا کیا۔

ایک واقعہ کا ذکر ضروری ہے جس سے اندازہ ہوگا کہ اس راستے میں کتنی زحمتیں اور مشکلات منہ کھولے کھڑی تھیں جو نہایت تکلیف دہ اور بعض اوقات جاں لیوا بھی تھیں۔ڈاکٹر روتھ فاؤ نے ایک کوڑھ زدہ بچی کی دردناک کہانی بیان کی ہے جسے گھر والوں نے پہاڑ میں کہیں پھینک دیا تھا۔ روتھ فاؤ نے لکھا ہے کہ شمالی پاکستان میں چترال بارڈر کے قریب پتہ چلا کہ ایک جذام یافتہ بچی کو گھر والوں نے ایک پہاڑی غار میں ڈال کر باہر اونچی دیوار کھڑی کر دی تھی تاکہ وہ باہر نہ آسکے۔ روتھ فاؤ کس طرح وہاں پہنچتی ہے، کس طرح ایک کوڑھ زدہ ہاتھ کو تھامتی ہے اور اسکا علاج کرتی ہے وہ آنسوؤں سے پڑھی جانے والی کہانی ہے۔ ایک جملہ جو کلیجہ چیر دیتا ہے وہ یہ کہ جب روتھ فاؤ دیوار پھلانگ کر غارمیں پہنچتی ہے تو کیا دیکھتی ہے کہ چیتھڑوں میں ملبوس ایک کوڑھ زدہ جسم اسے دیکھ کر سخت خوف زدہ ہو جاتا ہے۔ روتھ فاؤ اس کا خوف دور کرنے کیلئے جیب سے نکال کر ایک مٹھائی دیتی ہے تو بچی چشم زدن میں وہ مٹھائی ریپر سمیت نگل لیتی ہے اور امید بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے ایک نامکمل جملہ ادا کرتی ہے...یہ دوائی۔

زندگی اور موت سفر زندگی کے دو رخ ہیں جہاں ثبات نہیں ہاں مگر شاید انداز سفر مختلف ہو۔ کوڑھ زدہ زندگیوں کو گلے لگاتے لگاتے ڈاکٹر روتھ فاؤ نے بظاہر اس جہان رنگ و بو کو خیر باد کہا۔ غالباً نئے سفر میں کچھ اور ذمہ داریوں کی سلیب کاندھے پر اٹھانا مقصود تھا لہٰذا اجل کو لبیک کہا تاہم ان کی آخری خواہش بڑی دیدہ زیب تھی۔ انہوں نے وصیت کی تھی کہ اسے دلہن کے سرخ لباس میں دفنایا جائے ، زندگی بھر تو سفید لباس کو مقدم جانا مگر اس دنیا سے انکی رخصتی دلہن کے سرخ لباس میں ہوئی۔

تازہ ترین