پاکستان اس وقت ایک نازک مگر امکانات سے بھرپور موڑ پر کھڑا ہے، جہاں معیشت کی بحالی کیلئے ٹھوس اقدامات، مؤثر سفارت کاری اور اندرونی استحکام فیصلہ کن کردار ادا کر سکتے ہیں۔ گزشتہ دنوں فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کے غیر ملکی دورے نہ صرف دفاعی لحاظ سے اہم ثابت ہوئے ہیں بلکہ انہوں نے پاکستان کیلئے معاشی شراکت داری اور سرمایہ کاری کے نئے دروازے بھی کھولے ہیں۔ امریکہ اور چین جیسی عالمی طاقتوں کی دلچسپی صرف پاکستان کے اسٹرٹیجک محل وقوع تک محدود نہیں رہی، بلکہ اب وہ اس کی پوشیدہ معاشی صلاحیت کو بھی سمجھنے لگے ہیں۔ حالیہ پاک بھارت جنگ میں پاکستان کی برتری نے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ پاکستان نہ صرف دفاعی اعتبار سے مستحکم ہے بلکہ اپنے مفادات کے تحفظ اور خطے میں طاقت کا توازن قائم رکھنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ بھارت جو خطے میں بڑی معاشی اور فوجی طاقت بننے کے خواب دیکھ رہا تھا اس کیخلاف اس تاریخی برتری نے خطے میں پاکستان کی سفارتی پوزیشن کو مزید مضبوط کیا ہے، جو آئندہ تجارتی و اقتصادی مذاکرات میں ہمارے لئے ایک مضبوط بنیاد فراہم کر سکتی ہے۔امریکہ کی جانب سے نایاب معدنیات اور توانائی کے منصوبوں میں تعاون کی پیشکش ایک اہم پیشرفت ہے۔ ریکوڈک بلوچستان ، کے پی کے اور سندھ کے وسیع ذخائر منصوبے، اگر شفافیت اور عالمی معیار پر بروقت بروئے کار لائے جائیں، تو یہ پاکستان کیلئے زرمبادلہ کا ایک مستقل اور پائیدار ذریعہ اور خوشحالی کا باعث بن سکتے ہیں۔ دوسری طرف چین کیساتھ سی پیک منصوبہ اب دوسرے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے، جس میں روڈ نیٹ ورک ،صنعتی زونز، ریلوے، بندر گاہ، توانائی اور ٹیکنالوجی میں تعاون پاکستان کو اقتصادی خود انحصاری کی طرف لیجا سکتا ہے، تاہم اسکے لئے بہترین حکمت عملی اور سفارتکاری کی ضرورت ہے ۔ توانائی کا شعبہ معیشت کا اہم ستون ہے۔ ایران اور وسطی ایشیائی ریاستوں سے قدرتی گیس کی درآمد کیلئے مجوزہ پائپ لائن منصوبے اگر امریکی حمایت اور بیرونی سفارتی و مالی تعاون سے مکمل ہو جائیں تو یہ نہ صرف توانائی کے بحران پر قابو پانے میں مددگار ہونگے بلکہ صنعتوں کو سستی بجلی اور گیس کی فراہمی سے برآمدات میں مسابقتی برتری حاصل ہوگی۔ پاکستان کو خطے میں تجارتی راہداری کا مرکز بنانے کیلئے ایک مربوط حکمتِ عملی ضروری ہے۔ صدر ٹرمپ کی کوششوں سے دو دشمن ممالک آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان تجارتی لنک کوریڈور کے حالیہ معاہدے سے قریب و جوار کے تمام ملکوں کو فائدہ ہو گا ۔ اسی طرز پر چین، روس، وسطی ایشیائی ریاستوں، بھارت، خلیجی ممالک اور مغربی دنیا کیلئے پاکستان ایک محفوظ، مختصر اور کم لاگت تجارتی راستہ فراہم کر سکتا ہے۔ خیبر پاس اکنامک کاریڈور، زاہدان بارڈر، گوادر بندرگاہ ،ایم ایل ون اور کراچی بلوچستان ریلوے و کوسٹل ہائی وے جیسے منصوبے اگر بروقت، درست حکمتِ عملی کیساتھ اور اختلافات و تحفظات دور کر کے مکمل کئے جائیں تو پاکستان عالمی تجارتی نیٹ ورک کا کلیدی مرکز بن سکتا ہے۔ نوجوان نسل ہماری سب سے بڑی طاقت ہے۔ دنیا میں تیزی سے ابھرتے ہوئے شعبے، جیسے ڈیٹا سائنسز، ڈیجیٹل ٹیکنالوجی، مصنوعی ذہانت، روبوٹکس، جدید زرعی ٹیکنالوجی ،ماحولیاتی سائنس ،میتھ میٹکس اور فزکس میں نوجوانوں کو مہارت دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ فنی تربیتی اداروں کو جدید خطوط پر استوار کر کے ہم نہ صرف اندرونِ ملک روزگار پیدا کر سکتے ہیں بلکہ ہنر مند افرادی قوت کو بیرونِ ملک بھیج کر قیمتی زرمبادلہ بھی کما سکتے ہیں۔ ٹیلی کمیونیکیشن کا مضبوط انفراسٹرکچر کسی بھی جدید معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ 5G ٹیکنالوجی، فائبر آپٹک نیٹ ورک کی توسیع اور شہری و دیہی علاقوں میں تیز رفتار انٹرنیٹ کی فراہمی سے ای-کامرس، ای-گورننس اور ڈیجیٹل سروسز کا دائرہ وسیع ہوگا، جو معیشت کو جدید خطوط پر استوار کریگا۔ تاہم یہ سب اسی وقت ممکن ہے جب ملک میں امن و امان کی صورتحال مثالی ہو اور حکومتی مشینری بدعنوانی سے پاک، تیز رفتار اور سرمایہ کار دوست کردار ادا کرے۔ سیاسی محاذ آرائی اور عدم استحکام معیشت کی رفتار کو سست کرتے ہیں، اسلئے قومی مفاد میں سب کو مل بیٹھ کر ایک اقتصادی ایجنڈے پر متفق ہونا ہوگا۔ملکی ترقی کا سفر صرف بیانات اور اعلانات سے ممکن نہیں ہوتا، بلکہ اس کیلئے ٹھوس، منظم اور تسلسل کیساتھ کئے گئے اقدامات ضروری ہوتےہیں ۔پاکستانی افواج کےسپہ سالار کے حالیہ غیر ملکی دوروں میں اسٹرٹیجک تعلقات اور معاشی شراکت داری پر جو بات چیت ہوئی ہے، اسکو عملی شکل دینا وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ اس کیلئے اندرونی محاذ پر سیاسی استحکام کو بھی یقینی بنانا ہوگا، کیونکہ غیریقینی سیاسی حالات سرمایہ کاری کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ امن و امان کی بحالی، تیز رفتار شفاف عدالتی نظام، کرپشن سے پاک سرکاری ادارے اور سرمایہ کار دوست ماحول ،بہتر گورننس وہ بنیادی ستون ہیں جن پر معیشت کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ دوسری طرف، توانائی کے بحران کے خاتمے کیلئے ایران اور وسطی ایشیائی ممالک سے گیس و بجلی کے معاہدوں اور ڈیموں کی تعمیر کو تیزی سے آگے بڑھانا ہوگا، تاکہ صنعت کو سستی توانائی میسر آسکے اور زراعت پانی کی کمی سے متاثر نہ ہو ۔ امریکی حکومت کی طرف سے تیل کے ذخائر کی تلاش میں مدد کے اعلان حوصلہ افزا ہیں تاہم ان منصوبوں پر برق رفتاری سے کام کرنا ہو گا ۔ نوجوانوں کو جدید ٹیکنالوجی، انجینئرنگ، آئی ٹی، ہیلتھ کیئر اور دوسرے ہنر مند شعبوں میں تربیت دینا مستقبل کیلئے سب سے بڑی سرمایہ کاری ہے۔ اگر یہ تمام اقدامات سنجیدگی سے کئے جائیں تو نہ صرف معیشت کا پہیہ تیزی سے گھومے گا بلکہ پاکستان خطے میں تجارتی، توانائی اور مواصلاتی مرکز کی حیثیت بھی حاصل کر سکتا ہے۔ یہی وہ وژن ہے جو ہمیں عالمی صف میں مضبوط اور خودمختار مقام دلائے گا۔
( صاحبِ مضمون سابق وزیر اطلاعات پنجاب ہیں)