• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

منزل اور مراد یکجا ہو جائیں، مل جائیں تو پاکستان بنتا ہے اللّٰہ اور رسولﷺ کے نام پر قائم یہ ریاست تاقیامت شاد و آباد رہے گی۔ ہم نے اس منزل مراد کے حصول کیلئے لازوال قربانیاں دیں، مجموعی طور پر بیس لاکھ لوگ جاں بحق ہوئے، کروڑوں بے گھر ۔’’ہجرت‘‘ کا لفظ کہنے میں آسان ہے مگر کرنا مشکل۔ قربانیوں کے ان لاتعداد اور المناک واقعات میں خون سے لکھی ہوئی لرزہ خیز کہانی میرے آبائو اجداد کی بھی ہے۔ وہ صدیوں قبل باجوڑ اب صوبہ کے پی کے علاقہ سے مشرقی پنجاب کے شہر روپڑ آبسےتھے۔ یہ شہر ایک ہندو راجہ سروپ کے نام پر بسایا گیا تھا۔ شہر کے ایک جانب کوہ شوالک ایستادہ ہے۔ دوسری جانب نہرسرہند بہتی ہے۔ تیسرے رخ پر دریائے ستلج رواں دواں ہے۔ اب بھارت میں اس شہر کے بگڑے نام روپڑ کا اصل نام روپ نگر بحال کرکے اسے ڈویژن کا درجہ دیدیا گیا ہے۔ میرے آبائو اجداد صدیوں تک اس علاقہ میں بااثر طاقتور اور مالدار خاندان کے طورپر معروف تھے۔ بقول (م ش) ’’روپڑ کا الٰہی خاندان بھارت کے مسلمانوں کی دینی حمیت کا نشان تھا، رنجیت سنگھ کے دور میں سکھ فوج کو معرکۂ ملک پور میں شکستِ فاش دی اورہمیشہ آزادی، خودمختاری اور حیثیت برقرار رکھی۔ 1857ء کی جنگ آزادی میں بھرپور حصہ لیا۔ جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ تکالیف و مصائب جھیلے، معتوب ٹھہرے، پابندیوں کا جرات سے سامنا کیا۔ بالآخر پینتالیس برس بعد انگریز بادشاہ ایڈورڈ ہفتم کی تاجپوشی کے موقع پر عام معافی کے اعلان پر انکے انسانی اور سماجی حقوق بحال ہوئے۔‘‘ پہلی بار خاندان کے اہم افراد تعلیم کیلئے لندن روانہ ہوئے جن میں سابقہ سول سرونٹ معروف مصنف ،نگران وزیرعلیٰ شیخ منظور الٰہی کے والد جناب شیخ محبوب الٰہی سرفہرست تھے۔ وہ قانون ساز اسمبلی کے ممبر بنے، پھر کئی بار ممبر اسمبلی منتخب ہوئے۔ دوسری معروف شخصیت ڈاکٹر عبدالغفار تھے جو کئی برس تک سپرنٹنڈنٹ کیمپ جیل رہے، وقت گزرتا گیا ، آزادی کا عظیم لمحہ آ یا توتباہی و بربادی، قتل و غارت گری عروج پر پہنچی۔ روپڑ کے سازشی ہندو ڈپٹی کمشنر ہندوئوں اور سکھوں نے اصرار کیا کہ حالات دگرگوں ہیں سارا خاندان پاکستان چلا جائے اور حالات بہتر ہوتے ہی ایک ماہ میں واپس آ جائے۔ یکم ستمبر 1947ء کا سیاہ دن آ گیا ہمارا سارا خاندان سامان سمیت گھروں کو چھوڑ کے بذریعہ ٹرین روپڑ سے انبالہ روانہ ہوا جسکی اگلی منزل لاہور تھی، مگر یہ سفر عیاری تھی۔ ٹرین میں تقریباً ایک سو عورتیں، بچے، بوڑھے اور نوجوان سوار تھے۔ نصف شب کے قریب جب یہ ٹرین سرہند ریلوے اسٹیشن پہنچی تو روک کر پروگرام کے مطابق اس پر حملہ کر دیا گیا۔ بلوائیوں نے ٹرین پر گولیوں، تلواروں، نیزوں، کرپانوں اور کلہاڑیوں سے حملہ کر دیا۔آہ و بکا،چیخ و پکار جاری تھی مگر حملہ آور مسافروں کو شہید کرتے جا رہے تھے۔ ان قیامت خیز لمحات میں میرے والد گرامی کے ایک عزیز مولوی عبدالرحمن خواتین کی حفاظت کیلئے زنانہ ڈبے کے دروازے میں بیٹھ گئے۔ ان پر وار شروع ہوئے ہر وار پر اللّٰہ اکبر کی صدا بلند کرتے، لاشوں میں دبے میرے والد کے مطابق انہوں نے تقریبا ستر بار اللّٰہ اکبر کی صدا لگائی بالآخر یہ آواز خاموش ہو گئی۔ ایک عجیب رقت انگیز منظر تھا، بلوائی انہیں زخم لگا رہے تھے اور وہ خدا کاشکر ادا کرکے، اللّٰہ اکبر اور نعرہ تکبیر بلند کر رہے تھے۔ آخری سانس تک کلمہ طیبہ کا ورد جاری تھا۔ سلام ایسے شہیدوں پر جن کی لازوال اور عظیم قربانی سے ہمیں آزادی ملی۔ اس حملے کے دوران میرے والد کے نوجوان صاحبِ جمال تایا زاد بھائی نے حملہ آوروں کا آخری وقت تک مقابلہ کیا۔ قاتل اور بلوائی ان سے سامان چھین کر فرار ہوتے ہوئے نیزہ انکی چھاتی میں پیوست کر گئے خون کا فوارہ پھوٹا ، ٹرین کا فرش بھر گیا۔ انکی بیگم اور بچہ بھی عہد وفا نبھا گئے اور ساتھ ہی جان اللّٰہ کے حضور پیش کی، یہ قربانیاں تاریخ کا حصہ ہی رہیں گی، مگر آنیوالی نسلوں کو آگاہ کرنا ہوگا۔بقول میرے والد ٹرین کے ڈبے ،پائیدان، کھڑکیاں، باتھ رومز اور فرش خون سے بھر گئے اور یہ مقدس خون شہیدوں کا تھا۔ میرے والد نے لاشوں کے نیچے سے فجر کی اذان سنی، حملہ آور جا چکے تھے وہ لاشوں کو دیکھتے دیکھتے سرہند اسٹیشن کے پار کھیتوں سے ہوتے ہوئے ایک گائوں پہنچے۔ گائوں والوں نے قریب ہی سرہند شریف مجدد الف ثانی کے مزار پرجانے کا مشورہ دیا۔ درگاہ پر پہنچے تو کھانا، لباس، جوتا اور جان کی امان ملی۔والد محترم وہاں کچھ دن رک کر ایک فوجی ٹرک میں سوار واہگہ بارڈر پہنچے،سجدۂ شکر بجا لائے اب وہ آزاد تھے، آزاد ملک کے شہری تھے، وہاں سے پیدل اپنی ایک خالہ کے گھر سعدی پارک لاہور پہنچے تو معلوم ہوا کہ ان کے قُل پڑھے جا چکے ہیں۔ انہیں دیکھ کر سب خوش اور حیران ہوئے۔ معلوم ہوا کہ میرے والد کے والدین ،بہن بھائی بھی بچ گئے ہیں اور لاہور میں قیام پذیر ہیں۔ سب آپس میں مل تو گئے مگر روح اور دل کے گھائو مندمل نہ ہوئے۔ شہیدوں کی یاد بھی سرمایہ حیات بن گئی، ناقابل فراموش قربانیاں، کہانیاں، خاندان کی زندگی بھر کی داستانیں بن گئی جو دہرائی جاتیں، سنائی جاتیں۔ شام کے کھانے کے بعد یہ ذکر جاری ہوتا اور دعائے مغفرت ہوتی۔ برس ہا برس تک یہ سلسلہ جاری و ساری رہا۔ یہ وطن عزیز، جان سے عزیز پاکستان،یہ خطہ، یہ ملک قربانیوں کا ثمر ہے۔سرہند سٹیشن اس المناک داستان کا استعارہ ہے اور روپڑ (روپ نگر) قربانیوں کا مہکتا ستارہ ہے۔

تازہ ترین