مری بلوچستان کا ایک قابل ذکر اور بڑا قبیلہ ہے۔ نواب خیربخش اس قبیلے کے سردار تھے اور ’’آزاد بلوچستان‘‘ تحریک کے ایسے سرگرم لیڈر جو موت تک اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔ کئی بار گرفتار ہوئے اور ایک مدت خودساختہ جلاوطنی میں کابل میں گزاری۔
ایوب دور میں ان کی تحریک ’’بغاوت‘‘ میں تبدیل ہوگئی تھی تاہم جب ذوالفقار علی بھٹو برسراقتدار آئے تو انہوں نے باغی بلوچ سردارو ں سے مفاہمت پیداکرنے کی کوشش کی۔ 1970 کے انتخابات کے بعد بلوچستان میں جو پارٹی برسراقتدار آئی سردار عطااللہ مینگل وزیراعلیٰ بنے۔انہی دنوں جناب بھٹو روس کے دورہ پر گئے تو نواب خیربخش مری اور نواب اکبر بگٹی ان کے وفد میںشامل تھے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ سردار خیربخش مری لینن نواز اشتراکی تھے اوراپنی واسکٹ پر لینن کا بیج لگایا کرتے تھے۔ جب 1958میں نواب آف قلات نے بغاوت کی۔ قلات میں اپنے محل پر پاکستانی پرچم اتار کرقلات کا پرچم لہرا دیااورپاکستان سے الحاق کا معاہدہ ختم کرنے کااعلان کردیا تو سردار خیربخش مری ان چندبلوچ سرداروں میںشامل تھے جنہوں نے والی ٔ قلات کی حمایت کی تھی۔ بغاوت ختم کرنے کے لئے قلات پر فوجی آپریشن کیا گیا۔ والی ٔ قلات اوران کے بھائی پرنس کریم اور دوسرے افرادگرفتار کرلئےگئے۔ بعد میںخان آف قلات تائب ہوگئے اور جناب بھٹو نے انہیں بلوچستان کاگورنر بھی بنایا۔ اس سے قبل مینگل حکومت ختم کرکے غوث بخش بزنجو کی جگہ نواب اکبر بگٹی گورنربنائےگئے جن کی گورنری کے دور میں ’’عراقی اسلحہ کی ٹرین‘‘ چلائی گئی۔ اگرچہ سردار خیربخش مری ایک متنازع شخصیت تھے لیکن اول و آخر قوم پرست لیڈر تھے۔ ایوب خان اور بھٹو دور میں بلوچستان میں قوم پرستوں کی پرتشدد اور مسلح تحاریک شروع کیں۔ بہت سے باغی بلوچ پہاڑوں پر چڑھ گئے جن کے خلاف باقاعدہ فوجی آپریشن کیا گیا۔ انہی دنوں ایک باغی بلوچ لیڈر سردار شیر محمد مری جنہیں جنرل شیروف کہا جاتا تھا کی بڑی دھوم تھی۔ کہتے تھے کہ وہ گوریلا وار کے بڑے ماہر تھے۔ یہ ضیاالحق دور کی بات ہے کہ مجھے بلوچستان کا دورہ کرنے کا موقع ملا۔ مقصد یہ تھا کہ بلوچستان میں جو ’’احساس محرومی‘‘ ہے اس بارے میں تحقیق کی جائےاور اس کے اسباب کا سراغ لگایا جائے۔ اس وقت کے ایک بڑے نامور صحافی جناب غوری میرے ہمراہ تھے۔ دسمبر کا مہینہ تھا۔ شدید سردی تھی۔ وہاں ہم نے سردار مینگل، نواب بگٹی، سردار ڈوڈہ خان، غوث بخش زہری، نواب جوگزئی اور دوسرے رہنمائوں سے ملاقات کی۔ ان میں نواب خیربخش مری سے ملاقات بڑی پراسرار اور دلچسپ تھی۔ نواب صاحب قلات میں مقیم تھے۔ہم قلات پہنچے۔ ان سے رابطہ کرکے ملاقات کی خواہش کااظہار کیا تو جواب ملا ’’میں اسلام آبادگورنمنٹ‘‘ کےکسی آدمی سے ملاقات کرنا پسند نہیں کرتا۔ غوری مرحوم اس پر بڑے برہم تھے اورکہاکہ چلو واپس چلیں۔ لیکن مجھے نواب صاحب سے ملنے کا تجسس تھا۔ دو تین بجے کاوقت تھا کہ ہم ان کی حویلی جا پہنچے۔ اس وقت سردار خیربخش مری اپنی کار کا دروازہ کھولے ڈرائیونگ سیٹ پر کھڑے تھے۔ ہم نے تعارف کرایا تو برہمی کے انداز میں کہا ’’میں نےتو آپ سے ملنے سے انکارکردیا ہے میں آپ سے ملنا نہیں چاہتا۔ میں کسی اخبار والے کو انٹرویو نہیں دیتا‘‘ اور میری طرف دیکھ کر کہا کہ آپ کا اخبار تو تعصب پھیلاتا ہے۔ دوسری جانب حویلی کے ایک حصہ سے سردار شیر محمد مری آ تے ہوئے نظر آئے۔ میری ان سے لاہور میں ایک دوبارملاقات ہوئی تھی جب وہ جسٹس شفیع الرحمٰن کی عدالت میں پیش ہوئے اور جج صاحب نے انہیں ’’عام ضمانت‘‘‘ پر رہا کردیا تھا۔ اس وقت جنرل شیروف نے ہمیں بڑی کہانیاں سنائی تھیں۔ میری ان سےعلیک سلیک ہوئی۔
سردار شیر محمد مری نے سردار خیربخش مری سے کہا کہ ’’نواب صاحب! یہ میرا واقف ہے اچھا صحافی ہے اس سے مل لیں‘‘ سردار خیربخش مری نے ہماری جانب دیکھا اور کہا کہ اس وقت تو میں سردارشیرمحمد کی آنکھیں ٹیسٹ کرانے ڈاکٹر کے پاس جارہا ہوں۔آپ صبح 9بجے ناشتہ پر آ جائیں۔ لیکن میں اخباری انٹرویو نہیں دوں گا اور میری تمام گفتگو آف دی ریکارڈ ہوگی۔ ہم نے کہا کہ ٹھیک ہے۔ اگلے روز صبح ہم ان کی بڑی وسیع حویلی پہنچے تو مجھے ایک ایسے کمرے میں بٹھایا گیا جس کے درو دیواروںپر سرخ پینٹ تھا اور روسی انقلاب کے قائد لینن کی ایک بڑی تصویر لگی ہوئی تھی۔ جناب خیربخش مری آئے انہو ںنےکرتا، شلواور واسکٹ پہن رکھی تھی اور واسکٹ پر ’’لینن کا بیج‘‘ لگا ہوا تھا۔ ان کی ڈھلتی جوانی تھی لیکن وہ سرخ و سفیدرنگ کے بڑے خوبصورت اور ایسے وجیہہ جوان تھےجنہیں پرکشش شخصیت کہا جاسکتا تھا۔ وہ پاکستان حکومت سے بڑے ناراض تھے اوراسے اسلام آباد گورنمنٹ کہہ کر مخاطب ہو رہے تھے۔ اگرچہ انہوں نے باضابطہ انٹرویو تو نہیں دیا لیکن پون گھنٹے کی اس ملاقات میں انہوں نے حکومت ِ پاکستان کو یہ پیغام دیا کہ بلوچوں کے حق کو غصب نہیں کیاجاسکتا اور یہ علاقہ پہلے بھی آزاد تھا اور اب بھی آزاد ہوگا۔ ’’ہم کسی اسلام آباد گورنمنٹ کو نہیںمانتے‘‘وہ ایک بار پھر کابل چلے گئے تاہم بینظیر بھٹو دور میں واپس آگئے اور سردار مینگل کی طرح عملی سیاست سے دستبردارہو کرکراچی میں سکونت اختیار کرلی۔ وہ ایک طویل عرصہ سے بیمارتھے۔ منگل کو دنیا میں 86 سال گزار کر خالق حقیقی سے جاملے۔ جہاں ہم سب نے جانا ہے!!!