(بے باک صحافی حامد میر کے نام)
اگرمیں سچ بولوں گا
ماردیا جاؤں گا
اگر تم سچ بولو گے
ماردئیے جاؤ گے
تو پھر سچ کون بولے گا؟
مجھے موت کا خوف نہیں
موت تو ایک پل ہے
جو دوست کو دوست سے ملاتا ہے
موت تو ماندگی کا وقفہ ہے
یعنی آگے چلیں گے دم لے کر
تو پھر موت سے خوف کیسا
خوف اس بات کا ہے
جس سچ سے مجھے موت آنی ہے
وہ سچ میرے بعد بھی زندہ رہے گا یا نہیں
اس سچ کو کوئی سچ مانے گا بھی یا نہیں
حیات اللہ ہوں یا محمد صلاح الدین
یا ان جیسے بہت سے دوسرے
ان کے سچ کو کس نے یادر کھا
میرے سچ کو بھی کون یاد رکھے گا
سلیم احمد نے کہا تھا:
صحرا میں اذان دے رہا ہوں
شاید کوئی بندہ ٔخدا آئے
کیا وہ بندۂ خدا میں ہوں؟
نہیں وہ کوئی اور ہے،
وہ ، وہ ہے جسے اپنے بچّوں کا غم نہیں ہوتا
اس کی موت کے بعد
انہیں کون پالے گا؟
کون کھلائے گا؟
گود میں بٹھا کر کون پیار کرے گا؟
یہ غم اسے خوف زدہ نہیں کرتا،
یہ اندیشہ اسے سچ بولنے سے روکتا نہیں
وہ بندۂ خدا کب آئے گا؟
اور یہ جو اللہ کے برگزیدہ بندے
سچائی کی راہ میں مارے گئے،
جنہیں ان کے سچ نے گولیوں سے بھون دیا
خون میں نہلادیا
ان کی سچائی کی قدر کتنے دلوں میں ہے
کیا یہ وہی صحرا میں اذان دینے والے تھے
مگر یہ صحرا ، یہ پر ہول صحرا
اتنے سناّٹے اور ویرانی سے بھر ا کیوں ہے؟
کیا یہ اندھوں اور نابیناؤں کی بستی ہے
جو سن کر بھی لوگ نہیں سنتے
دیکھ کر بھی لوگ نہیں دیکھتے
ان کے سینوں میں دل ہیں یا پتھّر
وہ خدا کی راہ میں نکلتے کیوں نہیں
ایک اور ہجرت ان پر واجب ہوچکی ہے
وہ کہتے رہے
ہم نے مدینے کی آرزو میں ہجرت کی تھی
ہمارے آباؤاجداد نے گھر بار چھوڑا تھا
اور کٹی پھٹی لاشوں کو کندھوں پر اٹھائے یہاں پہنچے تھے
اب یہ مدینہ کربلا ہے
دونوں کے درمیان فاصلہ ہی کتنا ہے
’’نہ ہم بدلے ، نہ دل بدلا، نہ دل کی آرزو بدلی
میں کیوں کر اعتبار انقلاب آسماں کرلوں‘‘
اے چرخ نیلی فام!
آسمان سے سنگ ریزوں کی بارش برسا
ان ابابیلوں کو بھیج
جو چونچ میں کنکریاں دبائے آئیں
اور یہ کنکریاں انہیں ہی پیوست ہوں
جنہوں نے مدینے کو کربلا بنادیا
کیوں کہ
اگر میں سچ بولوں گا
ماردیا جاؤں گا
اگرتم سچ بولو گے تو ماردیئے جاؤ گے
اس لئے کہ
یہ یقین ہمارے اندر کمزور ہے
کہ مارنے والے سے بچانے والا طاقت ور ہے
زندگی دینے والا
موت سے بچانے پر بھی قادر ہے
جنہوں نے سچائی کی خاطر موت کا جام پیا
وہ زندہ ہیں، وہ شہید ہیں،
انہیں مردہ نہ کہو، تمہیں ان کی حقیقت کی خبر نہیں
یہ فرمان ہے میرے اللہ کا کہ
وہ جنّت کے حسین باغوں میں ہیں
انھیں وہاں سے رزق مل رہا ہے
جس کا تم گمان بھی نہیں کرسکتے
تو پھر اے مالک!
میراعہد ہے کہ
میں سچ بولوں گا
خواہ سچائی کی راہ میں مار ہی کیوں نہ دیا جاؤں
کیا تم بھی سچ بولو گے؟
اگر سچ بولو گے
زندہ رہو گے
دلوں میں ، خواہ یہ دل سہمے ہوئے ہی کیوں نہ ہوں
سہمے ہوئے ڈرے ہوئے دلوں میں زندہ رہ جانے کا
خواب کتنا دل کش ہے
آؤ ہم مل کر سچ بولیں
ہماراسچ ان کے جھوٹ پر غالب آئے گا
اور ایک دن
سچ بولتے بولتے ہم
ان پر بھی غالب آجائیں گے
اگر میں سچ بولوں گا
اگر تم سچ بولو گے
وہ کتنوں کو ماریں گے
ایک دن مارتے مارتے خود بھی مرجائیں گے
تب خدائے واحد وقہّار
ہمیں ان کے سامنے پیش کرے گا
اور پوچھے گا ان سے
اگر تمہیں اب بھی اپنی طاقت پر گھمنڈ ہے
تو اب انہیں مار کر دکھاؤ!
تب وہ کہیں گے
پاک پروردگار
ہم سے بھول ہوئی
وہ حق پر تھے اور ہم باطل!
فرشتوں نے انھیں اپنے پروں میں چھپا رکھا تھا
ہم ان کے چہرے نہ پڑھ سکے
ہمیں معاف کردیجئے؟
کیا خدائے واحد و قہّار انہیں معاف کردے گا؟
ہاں تو بہ کا دروازہ
اب بھی کھلا ہے
خدائے واحد وقہّار
اب بھی تمہاری توبہ کی دستک کا منتظر ہے!