ویسے تو گورنمنٹ کالج لاہور کے اکثر دوست ہمیں وقتاً فوقتاً یاد آتے رہتے ہیں مگر شاہدگل کا شمار ہمہ وقت یاد رہنے والوں میں ہوتا ہے۔ ہمارے د وستوں کی اکثریت عجیب و غریب ہوا کرتی تھی مگر شاہد گل کو ہم ہمیشہ عجیب الخلقت سمجھاکرتے اور اس گمان کی باقاعدہ ایک وجہ تھی۔ شاہد گل کی زندگی جن لرزہ خیزیوں اور حیرت ناکیوں کا مجموعہ ہے ان پر ایک طائرانہ سی نظر ڈالیں تو یہ حضرت آپ کو عجیب الخلقت ہی نہیں بلکہ اس سے بھی چار ہاتھ آگے ہی نظرآئیں گے۔
مثلاً ہاکی اور فٹ بال سے شغف رکھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ ریفری کسی بھی کھلاڑی کو بدعملی کی پاداش میں میدان سے باہر بھیجا کرتا ہے مگر شاہد گل کو ’’بدچلنی‘‘ کے سبب میدان سے نکلنے کا ا عزا ز حاصل ہے۔ تفصیل اس اجمال کی ہم آگے بیان کرتے ہیں ۔ ذرا اس سے پہلےایک اورصدمہ جھیلتے جایئے۔ آپ نے کسی بھی پوزیشن پر کھیلنے والے کھلاڑی کو سزا کے طور پر گرائونڈ سے نکلتے دیکھا ہوگا مگر ایماناً بتایئے کیاآپ نےکبھی گول کیپر کو ریڈکارڈ پر باہر جاتے دیکھا ہے؟ جی ہاں شاہد گل کو ہم نےایے ہی حالات سے دوچار دیکھ رکھا ہے۔
ہوا یوں کہ کالج اوول میں انٹرکلاس ہاکی ٹورنامنٹ کا ایک کانٹے دار میچ شروع ہونے کو تھاکہ سپورٹس انچارج نے نجانے کیا سوچ کر گل کو بھی ٹیم میں شامل کرلیا۔ صدیوں کا سست الوجود اور آرام طلب شاہدگل لسٹ میں اپنا نام دیکھ کر سخت پریشان ہوا۔ اس نے بہت شور مچایا کہ وہ زیادہ سے زیادہ کیرم بورڈ اور تاش وغیرہ کھیل سکتاہے۔ آئوٹ ڈور کا اس کو کوئی تجربہ نہیں۔ نیز کثرت تمباکو نوشی کے باعث تو اب وہ تھوڑی بہت بھاگ دوڑ بھی نہیں کرسکتا چنانچہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے لئے اس پر رحم کیا جائےوغیرہ وغیرہ۔ مگر انچارج نے ایک نہ سنی اور بیچارے گل کو طوعاً و کرہاً ہاکی اٹھانا پڑی۔ چلتے چلتے ایک آخری التجا اس نے یہ کی کہ اسے گول کیپر ہی بنا دیا جائے تو اس کی سات پشتیں انچارج صاحب کو دعائیں دیں گی۔ درخواست منظور کرلی گئی۔ کھیل شروع ہوئے ابھی تقریباً سات منٹ ہی ہوئے ہوں گے گول میں کھڑا شاہد گل تھکن سے چور دکھائی دینے لگا۔ اپنی انتہائی گول اور فربہ ساخت کے سبب گل بالکل یوں لگ رہا تھا جیسے کسی خوبصورت سے بھالو نے پیڈ باندھ رکھے ہوں۔ شومئی قسمت سے ہم چونکہ فل بیک کے فرائض انجام دے رہے تھے اس لئے اس کے چہرے کو ہم بغور دیکھ سکتے تھے۔ ہمیں نہایت غیرضروری طور پر متوجہ کرنے کے لئے اس نےایک واہیات سا گانا بھی شروع کیا۔ ہماری ناخوشگوار حیرت کو تعریف سمجھ کر وہ احمق مزید لہک لہک کرگانے لگا۔ ریفری کے فرائض انجام دیتے مشہور اولپمئن خواجہ جنید کے کانوں میں جونہی اس کے بے محل نغمے کی آواز پہنچی انہو ںنے نہ صرف کھا جانے والی نظروں سے گل کی طرف دیکھا بلکہ فلک شگاف سیٹی بجا کر غالباً اسے ایک عدد گالی بھی دی۔ گل سہم کرخاموش ہو گیا مگر دل ہی دل میں خواجہ جنید کی بدذوقی کا ماتم بھی کرتارہا۔عین اسی دوران گیند ہماری ڈی میں آپہنچا اور ہمارے ایک کھلاڑی کی غلطی کے سبب ہمارے خلاف پینلٹی کارنر دے دیا گیا۔ پینلٹی کارنر لگانے کے لئے جو دیوہیکل کھلاڑی پرتول رہا تھاوہ گورنمنٹ کالج کی ریگولر ہاکی ٹیم کا سینٹر ہاف تھا اور اس کی ہٹ روکنے کے لئے دل گردے اور اسی ساخت کے چند دیگراعضا درکار تھے مگر شاہد گل ان تمام سے یکسر محروم تھا۔ ہم سب کے کان پھٹا کھڑکنے کی دلخراش آواز کے منتظر تھے۔ سیٹی بجی، گیند پھینکا گیا اور انتہائی ہولناک ہٹ لگی۔ ماہرین کاخیال ہے کہ دنیا کاکوئی بھی پھرتیلا گول کیپر ہوتاوہ پہلی فرصت میں ہی اپنی جان بچانے کے لئے ایک طرف چھلانگ لگاکرگیند کو پورے عزت و احترام کے ساتھ گول میں جانے دیتا مگر صدیوں کا سست الوجودشاہدگل جلدی میں صرف آنکھیں ہی بند کرسکا اور کچھ نہیں۔ گیندگولے کی رفتار سے آئی اور اس کے پیڈوں سے ٹکرا کرگرائونڈ سے باہر چلی گئی۔ خطرہ تو ٹل گیا مگر دیکھتے ہی دیکھتے اوول گرائونڈ تالیوں سے گونج اٹھا۔ شاہدگل کی بند آنکھیں بھی غالباً اسی شور کے باعث کھلیں۔ ریفری کو تو چونکہ سار ی صورتحال کاعلم تھا اس لئے بجائے گل کی تعریف کرنے کے وہ بدستور اسے کھا جانے والی نظروں سے گھورتے رہے البتہ شاہدگل کی شکل تکبر کی آمیزش سے مزید ہونق لگنے لگی۔کھیل ہماری مخالف ڈی کے آس پاس جاری تھا اور شاہدگل کے چہرے پر پائی جانے والی بوریت ہم صاف پڑھ رہے تھے۔ وہ کبھی خودکلامی کرتا تو کبھی خارش۔ حتیٰ کہ ریفری بھی اسے بار بار ناک، کان و دیگر مقامات پرکھجاتے دیکھ چکا تھا مگر قائدے کی رو سے یہ کوئی جرم نہ تھا۔ پھر چندلمحوں بعد ہمارے کانوں میں ایک بیہودہ سا فقرہ گونجا۔ ’’اوئے تابو! تینوں لطیفہ سناواں؟ اک کڑی بی اے وچ فیل ہوگئی‘‘تماشائیوں پر گویا سکتہ طاری ہو گیا۔ ساری نظریں ہم پر ایسے جم گئیں جیسے یہ بیہودگی شاہدگل نے نہیں بلکہ ہم نےکی ہو۔ اس کی خوش قسمتی یہ رہی کہ ریفری کی اس پر نظر نہیں پڑی ورنہ اس مرتبہ وہ سیٹی کی بجائے تھپڑ بھی مارتا۔ گل لطیفہ مکمل کرنے کے لئے بے چین تھا مگر ہم عزت بچا کر اس سے کافی دور جا کھڑے ہوئے۔ کھیل بدستور ہماری مخالف ڈی کےآس پاس جاری تھا۔اچانک ہماری نظر پڑی تو ہم دیکھتے ہی رہ گئے۔ شاہدگل تھکن اور بوریت سے تنگ آ کر گول کے پھٹے یعنی تختے پر یوں بیٹھا تھا جیسے کسی کنویں کی منڈیر پر کوئی بندر نماچیز آ بیٹھی ہو۔اس بات سے یکسر بے خبر کہ دور کھڑے ریفری کی عقابی نگاہیں اسے دیکھ چکی ہیں۔ گل بدستور جمائیاں لیتا اور مختلف جگہیں کھجاتا رہا۔ تھوڑی دیر بعد وہ اس کام سے بھی بور دکھائی دینےلگا۔ ٹھیک ایک منٹ بعد اس کمبخت نے سگریٹ سلگا لیا۔ نہ صرف یہ بلکہ اشارے سےہمیں بھی سوٹاوغیرہ لگانے کی آفر کر ڈالی! ریفری جس کے صبر کا پیمانہ بڑی دیر کا لبریز ہو چکا تھا آپے سے باہر ہو گیا۔ سیٹی پہ سیٹی بجاتا وہ شاہد گل کی طرف لپکا۔ خواجہ جنید کے تیور دیکھ کر بیچارہ گل نہ صرف سہم گیا بلکہ آگے لگ کر باقاعدہ ایک طرف بھاگ نکلا۔ لیکن ایک اولمپئن کے آگے وہ معصوم زیادہ سے زیادہ کتنا بھاگ سکتا تھا۔ چند ہی قدم پر ریفری نے اسے جالیا۔ سیٹی کی زبان میں جتنی گالیاں ممکن تھیں خواجہ جنید نے اسے دے ڈالیں۔ پھر جیب میں ہاتھ ڈال کر انہوں نے پیلا کارڈ نکالا مگر اس پر تسلی نہ ہوئی تو دوسری جیب سے سرخ کارڈ نکالا اورگل کو دکھا یا۔ بعض شرپسند قسم کے چشم دید گواہان کہتے ہیں کہ خواجہ صاحب کی تسلی سرخ کارڈ پر بھی نہ ہوئی تو وہ اپنی پچھلی جیب کوٹٹولتے پائے گئے غالباً پستول تلاش کر رہے تھے!!!