• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دو سابق وزرائے اعظم ذوالفقار علی بھٹو کا ’معافی‘ سے انکار بینظیر بھٹو کی ’سیاسی مصالحت‘ دونوں ہی کام نہ آئیں، ایک پھانسی چڑھ گیا دوسرا شہید ہوا۔ تاہم اس انکار اور مصالحت کے درمیان جو کچھ ہوا اُس نے ہماری سیاسی تاریخ پر گہرے اثرات چھوڑے اور ہم آج تک اس بیانیہ سے باہر ہی نہ آسکے۔ کیا ملکی سیاست اور جمہوریت اسی سے ’مشروط‘ ہے۔

ابھی بھٹو کو پھانسی نہیں ہوئی تھی مگر سپریم کورٹ نے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف اپیل مسترد کردی تھی۔ اُنکے ایک قریبی ساتھی سابق وزیراعلیٰ سندھ جناب غلام مصطفیٰ جتوئی مرحوم سے میں نے انٹرویو کیا اور اس حوالے سے سوال کیا تو انہوں نے انکشاف کیا کہ ذاتی طور پر انہوں نے جنرل ضیاء الحق سے ملاقات کا فیصلہ کیا اور بیگم نصرت بھٹو کو اعتماد میں لیا تاہم بیگم صاحبہ نے اس خدشہ کا اظہار کیا کہ وہ (بھٹو) نہیں مانے گا۔ ’’میں نے ضیاء سے ملاقات میں تقریباً جھولی پھیلا کر معافی کی درخواست کی اور یقین دلایا کہ پورا خاندان جب تک وہ برسراقتدار ہیں پاکستان چھوڑ جائیگا۔ ضیاء نے درخواست پر ہمدردانہ غور کی یقین دہائی کرائی مگر مجھے اُسکے انداز سے یقین ہوگیا کہ معافی کا امکان نہیں۔ ’’بعد میں ایک بار میں نے بے نظیر بھٹو سے اس حوالے سے پوچھا تو انہوں نے کہا مظہر میں جب بھی بھٹو صاحب کو یہ یقین دلاتی کہ اُن کو پھانسی نہیں ہوگی دُنیا بھر سے اپیلیں آ رہی ہیں تو وہ مسکرا دیتے اور مجھے حوصلہ دیتے کہ ایک وقت آتا ہے جب آپ کے پاس چوائس ہوتی ہے اور میں نے تاریخ میں زندہ رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘‘

بینظیر بھٹو کی سیاست میں جرأتِ انکار بھی نظر آتی ہے اور ’سیاسی مصالحت‘بھی مگر تاریخ شاہد ہے کہ ’تمغہ جمہوریت‘ دیکر بھی اُنکی معافی نہ ہوئی ۔ بی بی ہمیشہ سے پُر تشدد سیاست کے خلاف رہیں اور جب بھائی مرتضیٰ بھٹو نے بزورِ طاقت باپ کی پھانسی کا بدلہ لینے کا راستہ اختیار کیا تو بھائی اور بہن کی راہیں جدا ہوگئیں۔وہ 1986ء میں واپس آئیں تو عوام کا ایک سیلاب تھا، اتنےبڑے ہجوم کودیکھ کر بھی اُس نے ملک میں عام انتخابات اور’ جمہوریت بہترین انتقام‘ کا ہی نعرہ لگایا ۔ سیاسی مصالحت میں شاید وہ بہت آگے چلی گئیں اور ایک مضبوط سیاسی اتحاد ایم آر ڈی کے مقابلے میں انہوں نے صدر کے طور پر غلام اسحاق خان اور چند پارٹی کے باہر کے وزراء کو بھی نہ چاہتے ہوئے قبول کیا جیسا کہ اس وقت بھی ایسے وزیر ہیں جن کانہ مسلم لیگ سے تعلق ہے نہ ہی پی پی پی ۔ یعنی بی بی کو سیاسی مصالحت کا جواب IJIاور مشروط اقتدار کی صورت میں نہ چاہتے ہوئے بھی ملالیکن ان فیصلوں پر تیار ہونے کے باوجود اُسے قبول نہ کیا گیا ۔ اقتدار کے پہلے 9ماہ میںہی عدم اعتماد کی تحریک لائی گئی اور 18ماہ میں اقتدار سے بیدخلی ۔ یہی نہیں پھر 1990ءکے الیکشن میں دھاندلی کر کے جسکو برسوں بعد سپریم کورٹ نے بھی اصغر خان کیس میں تسلیم کیا۔ IJIکی حکومت بنوائی گئی اور میاں نواز شریف وزیراعظم بنے۔بی بی کیونکہ مصالحت پسند تھیں انہوں نے دھاندلی کے باوجود اسمبلی کے اندر اور باہر پرامن احتجاج جاری رکھا 1993ءمیں جب نواز شریف کے ساتھ بھی وہی ہوا تو درمیانی راستہ نئے الیکشن کا نکالا گیا اور میاں صاحب اور غلام اسحاق دونوں کو جانا پڑا جسے جنرل وحید کاکاکڑ’فارمولا‘ بھی کہا جاتا ہے۔تاہم اقتدار دوبارہ ملنے کے باوجود بی بی کیلئے مشکلات ختم نہ ہوئیںاور یہ اقتدار بھی اپنی مدت پوری کیے بغیر ہی ختم کر دیا گیا مگر اس بار وجوہات میں کراچی میں ماورائے عدالت قتل اور خود انکے بھائی میر مرتضیٰ بھٹو کا قتل بھی شامل تھا ۔ اس بار الیکشن میں میاں صاحب کو دو تہائی اکثریت ملی گئی مگر پی پی 17نشستوں کیساتھ پارلیمنٹ میں موجود رہی۔ اس بار یہ اکثریت بھی کام نہ آئی اور 12اکتوبر 1999ءکو اتنی بڑی اکثریت رکھنےوالے کو بھی ’چند افسران‘ نے وزیر اعظم ہائوس سے باہر نکال دیا ۔ معزول وزیر اعظم پر مقدمہ چلا اور بات عمر قید سے پھانسی کی سزا تک آئی تو ’معافی اور مصالحت‘ دونوں کے نتیجہ میں خاندان کے ساتھ جلا وطنی ملی جس میںبہر حال دوست عرب ممالک کا بھی ہاتھ تھا۔

بھٹو کے انکار سے میاں صاحب کی ’معافی‘ اور مصالحت کی مختصر تاریخ آپ کے سامنے رکھ دی ہے۔ بی بی نے یہاں بھی صبر کا دامن نہ چھوڑا اور 2006 ء میں ایک تاریخی مصالحت کی اور وہ تھی اپنے بدترین سیاسی مخالف میاں نواز شریف سے۔ اسی طرح میاں صاحب کو بھی پہلی بار یہ خیال آیا کہ ہم دونوں کو کوئی تیسرااستعمال کررہا ہے۔ یہ’میثاق جمہوریت‘ کی ابتدا تھی یہ دونوں ملے تو ’تیسرے فریق‘نے ’تیسرے آپشن‘ پر غور کرنا شروع کردیا اور وہ آیا عمران خان کی صورت میں۔ وہ ابتدا میںجنرل مشرف سے بہت متاثر تھے اور اسی غلط فہمی میں انہوں نے 2002ء تک اُن کی حمایت کی کہ وہ نواز شریف اور بے نظیر کے خلاف ہیں، وہ تھے بھی اور 2002ءکے الیکشن کے وقت نہ پی پی کو اجازت ملی الیکشن لڑنے کی نہ میاں صاحب کو ۔خان صاحب کی غلط فہمی بھی دور ہوگئی جب اُن کو ایک نشست ملی اور لاٹری چوہدریوں کی کھل گئی۔ مشرف نے بی بی اور میاں صاحب کو الیکشن سے باہر رکھا تو وہ راستہ بنا ’ میثاق جمہوریت‘ کا تاہم 2007ءمیں جب بی بی اور مشرف کے درمیان ایک معاہدہ طے پاگیا این آر او اور آئندہ الیکشن کے حوالے سے ۔ بی بی واپس آگئیں تو میاںصاحب بھی جلا وطنی ختم کرکے آگئے اور عمران ،میاں صاحب اور قاضی حسین احمد ایک پیج پر تھے۔

بی بی سیاسی مصالحت میں بہت آگے تک گئیں مگر شاید آخر تک اُنہیں قبول نہیں کیا گیا ۔ جب مشرف نے یہ شرط عائد کی کہ وہ الیکشن تک واپس نہ آئیں تو بی بی کے ’انکار‘ کا سہارا لیا اور شہید ہوکر تاریخ میں امر ہوگئیں۔ ’میثاق جمہوریت‘ کے کچھ ثمرات آصف علی زرادی اور نواز شریف کے درمیان اس حد تک تو رہے کہ دونوں کی حکومتوں نے پانچ پانچ سال پورے کئے۔ پھر یوں بھی ہوا کہ جب خان صاحب نے اس غلط فہمی کہ ا ب مقتدرہ اُن کے ساتھ ہے 114دن کا دھرنا دیا تو پی پی پی نے اپوزیشن میں ہوتے ہوئے بھی پارلیمنٹ کا ساتھ دیا۔میاں صاحب کو نااہل کرکے عمران کو لایا گیا تو خان یہ سمجھ بیٹھا کہ اُس کے ہاتھ کھلے ہیں۔

2018ءسے 2022ء تک اُس کی حکومت کا گراف تیزی سے نیچے آ رہا تھا کہ جنرل فیض کے معاملے میں جنرل باجوہ کے سامنے اُس کے ’انکار‘ نے معاملہ خراب کر دیا اور تاحیات توسیع کی پیشکش بھی کام نہیں آئی اور جنکی مدد سے اُسکی حکومت بنائی گئی تھی اُنہی کی مدد سے گرا دی گئی۔ تاہم اُسکی اِس طرح بیدخلی نے اُسے مقبولیت کی بلند ترین سطح پر پہنچا دیا جو 8فروری 2024ء میں کھل کر سامنے آ گئی۔ تاہم ہمارے یہاں ’جمہوریت‘ ووٹ کے نہیں قبولیت کی مرضی سے چلتی ہے چاہے اُسکی کوئی بھی قیمت دینی پڑے۔ تاہم بی بی کے مقابلے میں خان صاحب نے جو سب سے بڑی غلطی کی اور اب بھی کر رہے ہیں وہ بڑی سیاسی جماعتوں سے سیاسی مصالحت نہیں کررہے۔ بی بی اور بیگم بھٹو نے تو اُن سے بھی بات کی تھی جنکو وہ بھٹو کے قتل میں شریک جرم سمجھتی تھیں۔ اب اگر بات آپ نے صرف مقتدرہ سے ہی کرنی ہے تو وہاں سے تو بات مشروط کر دی گئی ہے ’معافی‘ سے۔ البتہ یہ بات اب تقریباً طے ہے کہ یہ ’نظام‘ نہ پارلیمانی ہے نہ جمہوری تو ’میثاق استحکام پاکستان‘ کیسے ہوگا جب مصالحت ہی مشروط ہے۔

تازہ ترین