• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی تاریخ میں کئی ایسے دور آئے جب ریاست کو اپنی بقاء کیلئے ایک نہ ختم ہونیوالی جنگ لڑنا پڑی۔ دہشت گردی کا وہ بھیانک سلسلہ جس نے شمال سے جنوب اور مشرق سے مغرب تک پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب کسی بھی شہر کی گلی، کسی بھی بازار کا کونہ یا کسی بھی اسکول کا آنگن محفوظ نہیں تھا۔ ایک طرف مذہبی انتہا پسندی کے لبادے میں چھپے مسلح گروہ تھے، دوسری طرف بیرونی ایجنڈے پر کام کرنے والے علیحدگی پسند۔ شمالی علاقوں میں شدت پسندوں نے حکمرانی قائم کر لی تھی۔ لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی لگ گئی، موسیقی اور ثقافت کو جرم قرار دیا گیا، اور لوگ کوڑوں کی سزا دیکھنے پر مجبور تھے۔ بلوچستان کی صورتحال بھی کچھ کم نہ تھی۔ ایک طرف دہشت گرد گروہ ریاستی تنصیبات، سیکورٹی فورسز اور عام شہریوں کو نشانہ بنا رہے تھے، دوسری طرف علیحدگی پسند تحریکیں تھیں جو معصوم مسافروں، مزدوروں اور اساتذہ کو صرف اسلئے قتل کر دیتی تھیں کہ وہ پاکستانی شناخت رکھتے تھے۔ مکران کے ساحل سے لیکر کوئٹہ کی گلیوں تک، خوف کا راج تھا۔ ان حالات میں پاکستانی فوج نے اپنی تاریخ کی سب سے مشکل اور فیصلہ کن لڑائیاں لڑیں۔ آپریشن راہِ راست سوات میں شروع ہوا، جہاں فوج نے گھر گھر جا کر شدت پسندوں کو ختم کیا۔ اس کے بعد آپریشن راہِ نجات شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو توڑا گیا ان آپریشنز کے دوران ہزاروں فوجی جوان اور افسران شہید ہوئے۔ اسی پس منظر میں گزشتہ ہفتے انسدادِ دہشت گردی ترمیمی بل 2025ء سامنے آیا۔ اس بل کا مقصد سیکورٹی اداروں کو وہ قانونی اختیارات دینا ہے جو انہیں بروقت اور مؤثر کارروائی کے قابل بنائیں۔ اس میں سب سے نمایاں شق یہ ہے کہ سیکورٹی ادارے کسی بھی مشتبہ شخص کو بغیر مقدمہ تین ماہ تک حراست میں رکھ سکتے ہیں تاکہ تفتیش مکمل ہو سکے اور دہشت گردی کے منصوبے ابتدائی مراحل میں ہی ناکام بنائے جا سکیں۔ یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ اس بل کی تیاری اور منظوری کے پیچھے وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کا کردار انتہائی نمایاں ہے۔ انہوں نے نہ صرف سیکورٹی اداروں اور سول حکومت کے درمیان رابطے کا پل بنایا بلکہ سیاسی اختلاف رکھنے والی جماعتوں کو بھی قائل کیا کہ یہ قانون ریاست کیلئے ناگزیر ہے۔ ان کا مؤقف واضح تھا کہ اگر ہم دہشت گردوں کو جدید اور پیچیدہ حکمت عملیوں کیساتھ مقابلہ کرنے کے قابل بننا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے قوانین بھی اتنے ہی مضبوط اور جامع بنانا ہوں گے۔یہ بل دراصل اس احساس کا نتیجہ ہے کہ دہشت گردی صرف ایک فوجی مسئلہ نہیں بلکہ قانونی اور انتظامی مسئلہ بھی ہے۔ جب تک قانون نافذ کرنیوالے اداروں کو وہ اختیارات نہیں ملیں گے جن کی انہیں ضرورت ہے، دہشت گردی کے مکمل خاتمے کا خواب ادھورا رہیگا۔ تاہم، اس بات کو یقینی بنانا بھی ضروری ہے کہ یہ اختیارات صرف اور صرف دہشت گردی کیخلاف استعمال ہوں۔ پاکستان میں دہشت گردی کیخلاف جاری جنگ میں فوج کی قربانیاں محض اعداد و شمار نہیں بلکہ ایک ایسی داستان ہیں جو نسلوں تک سنائی جائیں گی۔وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کا کردار اس مرحلے پر تاریخی نوعیت کا ہے۔ ماضی میں کئی وزرائے داخلہ آئے اور گئے، لیکن بہت کم ایسے ہیں جنہوں نے اپنے دور میں نہ صرف پالیسی کی سمت متعین کی بلکہ عملی سطح پر بھی تبدیلیاں متعارف کروائیں اور اپنے انتظامی عہدےکو ایک قومی مشن کے طور پر اپنایا۔

ان کا سب سے بڑا کمال یہ رہا کہ انہوں نے سکیورٹی فورسز کی آپریشنل ضروریات اور سول انتظامیہ کی قانونی کمزوریوں کے درمیان پل قائم کیا۔ اس پل نے ایک طرف دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کو تیز کیا اور دوسری طرف عدالتوں میں ثبوت اور شواہد کی بنیاد پر مؤثر مقدمات چلانے کی راہ ہموار کی۔ بلوچستان کی صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے بھی وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کی پالیسیوں کا خاص اثر ہوا۔ وہاں دہشت گردی کے ہر واقعے کے بعد نہ صرف فورسز نے بروقت کارروائی کی بلکہ مقامی کمیونٹیز کیساتھ اعتماد سازی کے اقدامات بھی کئے۔ یہی وجہ ہے کہ کئی علاقوں میں جو کبھی ریاستی رٹ سے خالی ہو چکے تھے، وہاں دوبارہ پاکستان کا پرچم لہرانے لگا۔بین الاقوامی سطح پر بھی ایسے قوانین کی مثالیں موجود ہیں ۔ برطانیہ میں 2000 ء کا Terrorism Actجبکہ امریکہ میں 9/11 کے بعد نافذ کیا گیاPatriot Act۔ اسی طرح آسٹریلیا اور فرانس نے بھی ایسے قوانین بنائے جن کی مدد سے دہشت گرد نیٹ ورکس کو توڑنا ممکن ہوا۔

پاکستان میں انسدادِ دہشت گردی ترمیمی بل 2025ء کو ان عالمی مثالوں کی روشنی میں دیکھا جا سکتا ہے۔ تاہم، ان مثالوں کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے طاقت کے غلط استعمال کا خطرہ۔ برطانیہ اور امریکہ دونوں میں ان قوانین پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے تنقید کی تھی۔ یہی وہ نکتہ ہے جسے پاکستان میں خاص طور پر مدنظر رکھنا ہوگا۔ محسن نقوی اور انکی ٹیم کو اس بات کا کریڈٹ ضرور دینا چاہئے کہ انہوں نے بل کی تیاری کے دوران یہ وضاحت دی کہ اسکے تحت کیے جانیوالے ہر اقدام کو ایک مانیٹرنگ میکانزم کے ذریعے جانچا جائیگا تاکہ طاقت کا غلط استعمال نہ ہو۔ اس کے باوجود، ریاستی اداروں پر لازم ہے کہ وہ شفافیت اور جواب دہی کو اس قانون کے نفاذ کا بنیادی حصہ بنائیں۔ہم بطور قوم ایک ایسے موڑ پر کھڑے ہیں جہاں دہشت گردی کے خلاف جنگ نے ہمیں نہ صرف متحد کیا بلکہ ہمیں یہ بھی سکھایا کہ آزادی اور امن کی قیمت مسلسل چوکسی اور قربانی میں ہے۔ لہٰذا، ضروری ہے کہ فوج کی قربانیوں، محسن نقوی کی قیادت، اور اس قانون کے مثبت پہلوؤں کو سراہتے ہوئے ہم اس حقیقت کو نہ بھولیں کہ طاقت کا ہر اختیار ایک ذمہ داری کے ساتھ آتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب طاقت کا غلط استعمال ہوا، تو ریاستیں کمزور ہوئیں، عوام کا اعتماد ٹوٹا، اور معاشرتی خلیج بڑھ گئی۔ پاکستان کے پاس اس غلطی کی گنجائش نہیں۔

تازہ ترین