• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا میں دو قسم کے نظام رائج ہیں اور دو ہی قسم کے انسان یہاں رہتے ہیں۔ ایک کا کہنا ہے کہ چونکہ ﷲ تعالیٰ ہی کل کائنات کامالک وخالق ہے لہٰذا اسی کا بنایا ہوا قانون انسان کو اپنی زندگی گزارنےکیلئے نافذ کرنا چاہئے۔ وہ اسی فکر میں رہتے ہیں کہ ﷲ کی ذرا سی بھی نافرمانی نہ ہوجائے۔چونکہ وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ حکومت کے بنائے ہوئے ان قوانین کی پاسداری بھی شریعت نے ضروری قرار دی ہے جو مفادِ عامہ کو ملحوظ رکھ کر بنائے گئے ہوں اور شریعت سے متصادم بھی نہ ہوں تو وہ انکی بھی پابندی کو فرض سمجھتے ہیں۔ دوسری قسم کے انسان کا کہنا ہے کہ دنیا ہی سب کچھ ہے لہٰذا جیسے چاہو زندگی گزارو۔ اپنی مرضی کا قانون ہونا چاہیے،ہر چیز ڈسپوزیبل ہونی چاہیے تاکہ کسی کام کی ذمہ داری نہ آنے پائے۔

جیسے جانور زندگی گزارتا ہے اور پھر مرجاتا ہے اسی طرح انسان جیسے چاہے زندگی گزارے اور پھر مر جائے۔ سیکولر حضرات کی رائے ہے کہ عورت کو مکمل آزادی ہونی چاہیے۔وہ مردوں کے شانہ بشانہ چلے، نوکری کرے، اکیلی سفر کرے۔ وہ برقع کی قید سے آزاد ہو۔ وہ جیسا چاہے لباس پہنے، اپنی پسند کی شادی کرے۔ جس طرح مرد کو پسند ناپسند کا اختیار ہے اسی طرح عورت کو بھی ہونا چاہیے۔ عورت کو کسی بھی کام پر مجبور نہ کیا جائے۔ عورت کی حیثیت پارٹنر کی ہونی چاہیے۔ عورت پر کوئی معاشی، اخلاقی یا مذہبی پابندی بھی نہیں ہونی چاہیے۔ اس کے ساتھ کسی قسم کا امتیازی سلوک بھی نہیں ہونا چاہیے۔ جبکہ شرعی قوانین اور حکومت کے ایسے قوانین جو شریعت سے متصادم نہ ہوں دونوں ہی قوانین کو دل وجان سے تسلیم کرنے والے طبقے کا خیال ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے جو پابندی عورت پر عائد کی ہے اتنی پابندی توعورت پر ہونی ہی چاہیے۔ اﷲ تعالیٰ نے عورت کیلئے پردے کا حکم دیا۔ گھر میں رہ کر گھر کا نظام چلانے کا حکم دیا ہے۔ مرد پر معاشی ذمہ داری ڈال کر عورت کو معاش کی فکر سے آزاد قرار دیا ہے۔

پاکیزگی اور شرم وحیا برقرار رکھنے کیلئے غیر محرم سےبلا ضرورت بات چیت سے منع فرمایا ہے۔ بچوں کی نگہداشت کا حکم دیا ہے۔ اپنے شوہر کی اطاعت کا حکم دیا ہے، لہٰذا اس پر سختی سے عمل پیرا ہونا چاہیے۔دراصل عورت کو اگر اس کا حقیقی منصب اور اسکی فطری صلاحیتوں کے مناسب مقام دیا جائے تو معاشرے کی بڑی برائیاں اپنی موت آپ مرجائیں، لیکن کسی نے عورت کو اتنا ’’تنگ ماحول‘‘ فراہم کیا کہ اس کا دم ہی گھٹ گیا تو کسی نےاسے لباس سے بھی بے نیاز کردیا۔ میرے سامنے اس وقت مختلف رپورٹس ہیں جو خواتین پر ہونے والے مظالم سے متعلق ہیں۔چند خبریں ریپ سے متعلق ہیں۔ ایک میں عورتوں کی اجتماعی آبروریزی کا ذکر ہے۔ ایک کرب ناک خط ہے جس نے مجھے اس موضوع پر لکھنے پر مجبور کیا۔ خط میں لکھا ہے۔ ’’میں نے ایک ایسے گھر میں آنکھ کھولی جہاں شروع ہی سے پردے کا اہتمام ہوتا تھا بلکہ پورے گھر میں دینی اور شرعی ماحول تھا۔ میں مکمل سکون اور راحت کی زندگی گزاررہی تھی۔ بعدازاں میری شادی ایک ایسے گھرانے میں ہوگئی جہاں روشن خیال اور مغرب زدہ ماحول تھا۔ چنانچہ میں بھی آہستہ آہستہ اس ڈسپوزیبل کلچر میں ڈھلتی چلی گئی۔ پردہ میں نے چھوڑ دیا، لباس فیشن کے مطابق ہو گیا ،یہاں تک کہ ’’ہمسفر‘‘ بھی تبدیل کرلیا۔

اب میری عمر 45سال ہے اور میں بے یارومددگار ہوں۔ دنیا کی ہر آسائش ہونے کے باوجود ’’بے سکون‘‘ ہوں جبکہ اس سے قبل دنیاوی آسائشوں کے کم ہونے کے باوجود صرف دین پر عمل پیرا ہونے کی وجہ سے مکمل سکون اور راحت میں تھی۔ میں اب دوبارہ پہلی والی زندگی کی طرف لوٹنے کا سوچتی ہوں، لیکن میرے حالات ایسے نہیں کہ میں لوٹ سکوں۔ بس میں اپنی مسلمان بہنوںسے کہنا چاہتی ہوں کہ وہ شریعت کے مکمل احکام کے مطابق زندگی گزاریں۔ اسی میں ان کا تحفظ ہے، سکون واطمینان ہے۔ جہاں عورت مرد کی زندگی سنوارنے کا سبب بنتی ہے وہیں گھریلو ماحول میں بھی کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ حقوق نسواںکے علمبرداروں کو کون بتائے کہ عورت کی مظلومیت کے اسباب وہ نہیں ہیں جن کا ڈھنڈورا تم پیٹتے ہو۔ جن اسباب کو تم بیان کرتے ہو وہ تو اس کے تحفظ، امان اور راحت کے ضامن ہیں اور جس کو تم عورت کی آزادی کہتے ہو اُس میں توعورت کی توہین اور بے توقیری ہے ۔ اگر عورت مکمل پردے میں ہو تو یہ ناخوشگوار واقعات پیش نہ آئیں۔اسلام نے عورت کو گھر کا ماحول فراہم کرکے اس کو ماں، بیٹی، بہن اور بیوی کا مقدس رشتہ فراہم کیا، جبکہ مغرب اور مغرب زدہ لوگوں نے گھر سے باہر نکال کر عورت کو بھی تباہ کیا اور اپنا خاندانی نظام بھی برباد کرڈالا۔ آج مغرب پریشان ہے اور پھر عورت کو گھر تک محدود کرنے پر سوچ رہا ہے، کیونکہ عورت کو ’’باہر‘‘ نکالنے میں جتنے نقصانات ہو رہے ہیں ان کی تلافی ممکن نہیں۔ بس ایک ہی حل ہے کہ عورت کو اس کے فطری فریضے کی ادائیگی کے لیے گھر کی ملکہ بنا دیا جائے۔ اگر عورت کو مظلومیت سے نکالنا ہے تو پھر اس سے مکمل پردہ کروانا ہوگا، اسے معاشرے کی غلیظ نظروں سے بچانا ہوگا، اس کی دینی تعلیم کا خوب اہتمام کرنا ہوگا، اسے معاش کی فکر سے آزاد کرنا ہوگا۔ اگر یہ کام نہ کیے تو وہ ظلم و جبر کی چکی میں اسی طرح پستی رہے گی۔ عورتوں کی اسمگلنگ ہوتی رہے گی، خودکشیوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ ریپ کے واقعات ہوتے رہیں گے۔ وہ نفسیاتی مریض بنتی رہے گی اور نادان لڑکیاں دھوکے باز مردوں کے ساتھ بھاگ کر عبرت ناک انجام تک پہنچتی رہیں گی۔

تازہ ترین