تاش کی بازی میں ٹرمپ کار ڈ ہمیشہ سب سے اہم سمجھا جاتا ہے۔ جو کھیلنے والے کی یقینی فتح کا نشان ہوتا ہے۔ لیکن آج کل دنیا میں جس ٹرمپ کار ڈ کا شوروغوغاہے۔ وہ اس سے مختلف ہے یہ ٹرمپ کارڈ جو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سیاسی حکمتِ عملی کا ہی دوسرا نا م ہے۔ ایک ایسی قوم کو نمبر 1کی پوزیشن سے گرنے سے بچانے کیلئے ہے،جو تقریباََ ایک صدی سے نمبر 1کی پوزیشن پر براجمان ہے، صدر ٹرمپ ایسی الٹی سیدھی چالیں چل رہے ہیں۔ جس پر ساری دنیا کے سیاسی مبصّر حیران و پریشان ہیں۔ کبھی وہ امریکہ میں درآمدکی جانیوالی اشیاء پر ٹیکس جسے آجکل ٹرمپ ٹیرف بھی کہتے ہیںبڑھا دیتے ہیں، کبھی فلسطینیوں کی حمایت پر غیر ملکی طالب علموں کے وظائف ختم کر کے انہیں ملک بدر کر دیتے ہیں۔ کبھی یو کرین کے معاملے میں اپنے پرانے حلیفوں یعنی یوکرینی صدر ویلنسکی اور یورپین ممالک کے سربراہان کیخلاف بے تکی باتیں کرتے ہیں۔ اسی طرح وہ اس ہندوستان کے پیچھے لٹھ لیکر پڑے ہوئے ہیں جسکے وزیراعظم کو وہ اپنا قریبی دوست گردانتے تھے اور وہ ایکدوسرے کی انتخابی مہم میں بھی شریک ہوتے تھے۔ یاد رہے یہ وہی بھارت ہے جسے امریکہ بہادر چین کیخلاف مستقبل کے اپنے سب سے بڑے اتحادی کی شکل میں دیکھ رہا تھا اور افغان جنگ کے بعد پاکستان سے تقریباََ منہ موڑ چکا تھا۔ پاکستان سے ٹرمپ کے اچانک رومانس اور گہری وابستگی کے اظہار نے بھی سب کو چونکا دیا ہے۔ یہ وہی ٹرمپ ہے جس نے اپنی پہلی صدارتی میعاد کے دوران پاکستان کو دوغلا ملک قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ وہ امریکہ سے پیسے لیتا رہا ہے اور امریکی مفادات کے خلاف کام کر تا رہا ہے۔ ٹرمپ کے حالیہ روّیےسے جہاں پاکستان کے حکمرانوں کو حیرت انگیز خوشگواریت محسوس ہوئی ہے وہیں پاکستانی اپوزیشن خصوصاََ پی ٹی آئی کے حامی خاصے مایوس اور نا امید بھی ہوئے ہیں۔ جو یہ توقع لگائے بیٹھے تھے کہ ٹرمپ کے صدر بنتے ہی وہ اپنے دوست عمران خان کو ایک فون کال کے ذریعے زنداں سے نکال کر مسند ِ اقتدار پر فائز کر دے گا۔ لیکن اس نے کبھی بھول کر بھی عمران خان کا نام نہیں لیا۔ بلکہ وہ مسلسل پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی شان میں رطبُ اللسان ہے۔ اور ایک ماہ کے اندر اس نے پاکستانی کمانڈر انچیف کو دو مرتبہ امریکہ مدعو کیا ہے۔
امریکی خارجہ پالیسی میں اس حیرت انگیز تبدیلی نے جہاں عالمی سیاست میں تہلکہ مچا دیا ہے ۔ وہاں طرح طرح کی قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں کہ صدر ٹرمپ کو اپنی پالیسیوں میں بار بار یو ٹرن کیوں لینا پڑ رہا ہے۔ اور کیا یہ تبدیلیاں مستقل ہیں یا عارضی ۔ تاریخ کے ایک طالب علم ہونے کی حیثیت سے مجھے سابقہ سوویت یونین کے آخری صدر میخائل گوربا چوف کا وہ زمانہ یاد آرہا ہے ۔ جب سوویت یونین تیزی سے عالمی طاقت کی پوزیشن سے نیچے گر رہا تھااور میخائل گوربا چوف نے اپنی وہ دو مشہور پالیسیاں پیش کی تھیں جنہیں ’’ پر سٹرائیکا ‘‘ اور ’’گلاسنوسٹ ‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ جس میں کیمونسٹ نظام کے یک جماعتی نظامِ حکومت کی جگہ کثیرالجماعتی جمہوریت کا تصّور پیش کیا گیا تھا۔ جسکے نتیجے میں سوویت ریاستوں کو آزادی دیدی گئی ۔ میخائل گوربا چوف کو سوویت یونین کے ٹوٹنے کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن اصل میں افغان جنگ نے سوویت یونین کو اتنا کمزور کر دیاتھا کہ اس کا ٹوٹنا ناگزیر ہو چکا تھا۔ اسی طرح امریکہ بھی افغان جنگ سمیت کئی اور جنگی تنازعوں میں اس طرح الجھ گیا کہ اندر سے اسکی معیشت کھوکھلی ہو چکی ہے اور دنیا کی’ امامت‘ اسکے ہاتھ سے ریت کی طرح پھسلتی جا رہی ہے۔ وہ اس وقت دنیا کا سب سے بڑا مقروض ملک ہے ۔ ٹرمپ جو کچھ بھی کر رہا ہے وہ ڈوبتے ہوئے شخص کے الٹے سیدھے ہاتھ پائوں مارنے کے برابر ہے۔ کیا ٹرمپ ٹیرف اور بڑے بڑے ناقابلِ یقین یوٹرن امریکی معیشت اور اپوزیشن کو گرنے سے بچا لیں گے۔ اس کا جواب نفی میں ہے۔ ایک چینی مبصّر نے بجا طور پر کہا ہے کہ امریکہ کو یہ حقیقت تسلیم کر لینی چاہیے کہ دنیا اس کی چوہدراہٹ کے بغیر بھی چلتی رہے گی کیونکہ یہی قانون ِ فطرت ہے ۔ جسکی طرف مشہور فلاسفربرٹرینڈ رسل نے بھی لکھا تھا کہ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ دنیا میں کبھی مشرق اور کبھی مغرب کی طر ف طاقت منتقل ہوتی رہتی ہے اور آنے والا دور مشرق کا ہے۔ جسکے مظاہر میں ہم مشرق میں دنیا میں ابھرتی ہوئی سپرپاور چین ، روس اور کوریا جیسے ممالک کو دیکھ رہے ہیں۔ جنکے مثبت اثرات پاکستان پر بھی مرتب ہو سکتے ہیں یہ امریکی معیشت کی زبوں حالی ہے جس نے صدر ٹرمپ کو ’’ امریکہ کو پھر عظیم بنائیں‘‘ کے نعرے کے تحت الیکشن لڑنے کی ترغیب دی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اب امریکہ عظیم نہیں رہا۔ لیکن کیا یہ عمل پر امن طریقے سے مکمل ہو جائے گا یا دنیا ایک مرتبہ پھر کسی بڑی جنگ کی طرف چلی جائے گی۔ یہ وقت ہی بتائے گا کیونکہ زخمی شیر اور ہارا ہوا جواری دونوں ہی بہت خطرناک ہو جاتے ہیں۔ آج کا شعر
دو قدم زمین اور آسمان مٹھی بھر
مجھ کو چاہئے فقط یہ جہان مٹھی بھر